دوحہ(این این آئی)افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے اْنھیں دورے کی دعوت دی گئی تو وہ پاکستان جائیں گے اور وزیراعظم عمران خان سے ملیں گے،جن کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں وہی ان پر”طالبان پاکستان کی پراکسی ہیں“جیسے الزامات لگاتے ہیں اوریہ ماضی میں بھی لگا چکے ہیں اور مستقبل میں بھی لگاتے رہیں گے،ہم بیرونی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وہ تمام افغان فریقین کے ساتھ ساتھ افغان حکومت سے بھی ملیں گے۔
ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی۔ پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں، تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوسکتی ہے۔ ہم نے امریکا کے ساتھ پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کئے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اْس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹیلی فون پر برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اْنھیں پاکستان کی طرف سے رسمی طور پر دعوت دی جائے تو وہ پاکستان جائیں گے۔اْن کا کہنا تھا کہ ہم تو خطے اور ہمسایہ ممالک کے دورے وقتاً فوقتاً کرتے ہیں تو اگر ہمیں پاکستان کی طرف سے رسمی دعوت ملتی ہے، تو ہم جائیں گے کیونکہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ طالبان پر تو پہلے سے ہی یہ الزامات ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں، تو کیا اس دورے سے افغانستان کے اندر اور باہر اْن پر مزید الزامات نہیں لگیں گے؟جس پر سہیل شاہین کا کہنا تھا وہ لوگ جن کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں وہی ان پر اس قسم کے الزامات لگائیں گے، ماضی میں بھی لگا چکے ہیں اور مستقبل میں بھی لگاتے رہیں گے۔
انہوں نے کہاکہ ایک تو ہمارے اسلامی اور قومی مفاد ہیں، جس میں ہم کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنے دیتے ہیں۔ البتہ جہاں تک دوسرے ممالک یا پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے کا سلسلہ ہے، اْن کے ساتھ تو ہمارے رابطے ہیں بھی اور ہم چاہتے بھی ہیں۔طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہاکہ بیرونی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وہ تمام افغان فریقین کے ساتھ ساتھ افغان حکومت سے بھی ملیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی۔ پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں،
تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوسکتی ہے۔62 سالہ امریکی شہری کیون کینگ اور پچاس سالہ آسٹریلوی شہری ٹیموتھی جاون کابل میں امریکن یونیورسٹی میں بطور استاد کام کرتے تھے، جن کو اگست 2016 میں طالبان نے افغان دارالحکومت کابل سے اغوا کیا گیا تھا،وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ وہ اڑتالیس گھنٹے کا کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، البتہ اْن کی ہروقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے ہوں اور اْن کے گرفتار ساتھی رہا ہو جائیں۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کئے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اْس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔