اسلام آباد(آن لائن)ضلعی عدالتیں ایف ایٹ کے پلازوں سے ہٹانے کے لیے درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں،زلزلہ تو دور کی بات آفٹر شاکس نے اسلام آباد کی عدالتیں ہلا کر رکھ دیں،بارشوں کے پانی سے اہم ریکارڈ ضائع ہونے کا خدشہ،حکومت اور ذمہ دار اداروں نے ایک نہ سنی تو عدالتیں سڑکوں پر آجائینگی،ایف ایٹ کچہری کی 60عدالتوں کے جج خود انصاف کے متلاشی نکلے ہیں،سیشن جج کی رپورٹ نے تھرتھلی مچا دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اسلام آباد سے طلب کی گئی رپورٹ میں جواب جمع کرواتے ہوئے سیشن جج سہیل ناصر نے ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کی مخدوش حالت کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں سہولیات کی کمی ہے جسکی وجہ سے یہاں ججز تو کیا جانور بھی رہنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اسلام آباد کچہری کی کچھ عدالتوں کی عمارتیں کرائے پر ہیں ۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عدالتی عمارتوں کی گزشتہ دس بر س سے مرمت تک نہیں کرائی گئی اور عمارتوں کی مرمت نہ ہونے کاذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اسلام آباد مالکان کو مستقل کرایہ نہیں دیتی جسکی وجہ سے مالکان عمارتوں میں مرمت نہیں کرواتے ۔سیشن جج نے رپورٹ میں مزید انکشاف کیا کہ عمارتوں کے مالکان نے ماتحت عدالتوں کی بے دخلی کیلئے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جو انہی عدالتوں میں زیر التوا ہیں ۔اورعمارتوں سے بے دخلی کے حکم پر عمل ہوا تو عدالتیں سڑک پر لگانی پڑیں گے جبکہ زلزلے کی وجہ سے عدالتوں کی متاثرہ عمارتوں پر کریکس کے نشانات واضح ہیں ۔خدشہ ہے کہ عمارتوں کی مخدوش صورتحال مستقبل میں انسانی زندگی کے لئے المیہ ثابت نہ ہو جائے ۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اسلام آباد کچہری میں 60 عدالتیں قائم ہیں اور کچہری کی خطرناک موجودہ صورتحال میں بنیادی سہولیات کی بھی کمی ہے جبکہ کچھ عدالتوں میں باتھ رومز تک نہیں ہیں اور نہ ہی عدالتی عمارتوں کی گزشتہ دس بر س سے مرمت کرائی گئی ہے اور پرائیویٹ عمارتوں میں عدالتوں کا سالانہ کرایہ سات کروڑ روپے ہے۔