کسی ندی کے کنارے ایک اونچی دیوار بنی ہوئی تھی۔۔۔ اس دیوار پر ایک پیاسا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ پیاس کے مارے اس کی جان لبوں پر آ گئی تھی وہ دیوار اس پیاسے انسان اور اس کی پیاس کے درمیان حائل تھی! اسے جب اور کچھ نہ سوجھا تو اس شخص نے دیوار سے اینٹیں اکھیڑ کر ندی کے پانی میں پھینکنا شروع کر دیں۔
اینٹ پانی میں گرتی تو ایک آواز پیدا ہوتی، اس آواز سے وہ پیاسا انسان لطف اندوز ہو رہا تھا، وہ تو اس سریلی آواز پر عاشق ہو گیا تھا، وہ مسلسل اینٹیں پھینکتا جا رہا تھا اور اس سے اسے ایک خاص نشے کی سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی۔ ندی کے پانی نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا، اے بندہ خدا! تو مجھے اینٹیں کیوں مارے جا رہا ہے؟ تجھے اس سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟ میں نے تیرا کیا بگاڑا ہے؟ پیاسے انسان نے جواب دیا: اے ندی کے ٹھنڈے میٹھے پانی! ایسا کرنے میں میرے دو فائدے ہیں! پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ: اینٹ پھینکنے کے بعد جو آواز آتی ہے اس سے میرے مردہ جسم میں جان پڑ جاتی ہے! میرے لیے یہ دنیا کی سب سے سریلی آواز بن گئی ہے۔ پیاسوں کو اس آواز سے بڑا سرور ملتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ: جتنی زیادہ اینٹیں اس ندی میں گرتی جا رہی ہیں! اتنا ہی ندی کا پانی میرے قریب آتا جا رہا ہے، گویا محبوب کے وصل کا لمحہ قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں جو پوشیدہ نکتہ ہے! وہ یہ ہے کہ: ’’نفس امارہ کی دیوار جب تک سر اٹھا کر کھڑی رہے گی وہ سجدہ کرنے میں رکاوٹ بنی رہے گی۔۔!‘‘ اے عزیز از جان۔۔! اپنی جوانی کو ضائع مت کر۔۔! اپنے اللہ کے حضور جھک جا اور نفس امارہ کی دیوار کو اکھیڑ کر پھینک دے۔۔‘‘ (حکایاتِ رومی سے منتخب کردہ حکایت بعنوان نفس امارہ کی دیوار)