منگل‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اسد عمر ’کرینگے اور ہو گا ‘کا راگ الاپتے رہے ، معیشت کی بہتری کیلئے ایسی تجاویز دیدی گئیں کہ جان کر آپ بھی کہہ اٹھیں گے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟کپتان کو زبردست تجاویز پیش کر دی گئیں

datetime 30  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گزشتہ روز پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے 100روزہ پلان اور کارکردگی کے حوالےسے ایک جائزہ عوام کے سامنے رکھا۔ اس حوالے سے ایک تقریب اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں منعقد کی گئی تھی جس میں وفاقی وزرا سمیت وزیراعظم عمران خان نے بھی شرکت کی اور قوم کے سامنے اپنی حکومت کی 100روزہ کارکردگی پر روشنی ڈالی۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے سوائے کریں گے یا ہو گا کی گردان کے علاوہ کوئی نہیں بات نہیں کی۔ تقریب سے وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی خطاب کیا جنہوں نے اپنی وزارت کے اعدادو شمار کے ساتھ آئندہ کے پلان پر روشنی ڈالی کہ کیسے ملکی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے معروف صحافی منصور آفاق جو کہ معاشی معاملات پر خاص نظر رکھتے ہیں نے اپنے کالم میں حکومت اور وزیر خزانہ اسد عمر کو چند نہایت مفید مشورے دئیے ہیں جو کہ واقعی قابل عمل اور فوری طور پر نافذ العمل ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز بھی ہیں۔ منصور آفاق نے اپنے ان مشوروں کو ترتیب وار درج کیا ہے جنہیں پڑھ کر آپ بھی انہیں داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ منصور آفاق روزنامہ جنگ میں شائع اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ ہم میں سےصرف دو فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ان میں ایک فیصدملازمین ہیں جو ٹیکس دیتے نہیں ہیں اُن کی تنخواہوں سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ تنخواہوں پر لگنے والا ٹیکس کتنا ہوسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو کہا’’ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کے لیے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘ مگر ٹیکس جمع نہ ہوسکا کیونکہ 80فیصد کاروبار کا ریکارڈ ہی نہیں تھا،لین دین کے معاملات زبانی کلامی تھے۔ پرویز مشرف نے کاروبارکی دستاویز بندی‘ کی مہم شروع کی مگر تاجر رکاوٹ بن گئےاتنی ہڑتالیں اور

مظاہرے کئے گئے کہ پرویز مشرف نے ’دستاویزی معیشت ‘ کا کام رکوا دیا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت نے بھی اس کام میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا۔یہ دو نوں پارٹیاں تاجروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔کاروباری دستاویزبندی کے بغیرٹیکس جمع ہو ہی نہیں سکتا۔معیشت کی فوری بحالی کےلئے ’’روڈ ٹیکس ‘‘ لگا کر چوبیس ہزار کروڑ جمع کئے جا سکتے ہیں۔ ہر کار پرسالانہ

چوبیس ہزار روپے روڈ ٹیکس لگا یا جائے۔کار رکھنے والا شخص اگر روزانہ ایک دوہزار روپے کا پٹرول ڈلوا سکتا ہے توماہانہ دوہزار روپے روڈ ٹیکس کیوں نہیں دے سکتا۔ پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں۔دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کے لوگ یہ روڈ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔گوادر کے ساتھ کراچی پورٹ پر بھی صرف بین الاقوامی قوانین کا اطلاق ہو۔یعنی وہاں

پورپین طرز کی تفریح گاہیں بنانے کی اجازت ہو۔یہ اجازت نامہ بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کا دروازہ کھول سکتا ہے۔دبئی ایک اسلامی ملک ہے۔مگر وہاں پر تفریح گاہوں اورہوٹلنگ کے قوانین یورپ جیسے ہیں۔تمام بڑےبینکوں کے مالکان کوآمادہ کیا جائے کہ وہ مل کر ایک بین الاقوامی بینک کا قیام عمل میں لائیں۔دنیا بھر میں اس کی برانچیں قائم کی جائیں اور مسلمان سرمایہ داروں کو

ایسی مراعات دی جائیں کہ وہ اپنا سرمایہ امریکی اور پورپین بینکوں سے نکلوا کراُسی بینک میں منتقل کردیں۔خاص طور پر عربی اور پاکستانی سرمایہ داروں کو۔اسلحہ بنانے میں ہم اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔اسلحےکی بین الاقوامی قوانین کے تحت مارکیٹنگ کی جائے۔دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے سب سے زیادہ دولت اسلحہ بیچ کر حاصل کی ہے۔سو ہمیں اسلحہ سازی کے کاروبار پر سب

سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ریکوڈک کے علاقےمیں 12 ملین ٹن تانبے کے ذخائرہیں جوتانبے کی سرزمین’’چلی ‘‘ سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے ساتھ 21ملین اونس سونے کے ذخائر ہیں،جن کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔سونے کی کانیں فوری پیمنٹ کی صورت میں پچاس ارب ڈالرمیں فروخت کر دی جائیں،چالیس ارب ڈالر سے پاکستانی عوام کو

غربت کی لکیر سے اوپر لایاجائے اور دس ارب ڈالر تانبا نکالنے پر لگائے جائیں،تانبے کی اِن کانوں سے ہر سال دس ارب ڈالر کا تانبا نکل سکتا ہے۔بیماریوں کے خاتمے کےلئے ہیلتھ لاٹری شروع کی جائے۔ٹکٹ ایک سو روپے کا ہو۔ہفتےمیں دو مرتبہ لاٹری نکالی جائے۔لاٹری کا ٹکٹ کم ازکم ایک کروڑ لوگ ضرور خریدیں گےیعنی ہر ہفتے دو سو کروڑ جمع ہونگے اس میں بیس کروڑ

انہیں دیا جائے جن کی لاٹری نکلے۔یوں ہر ہفتے پاکستان میں دو کروڑ پتی ہوجایا کریں گے۔باقی ایک سو اسی کروڑ ہر ہفتےہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو دیا جائے تاکہ مفت علاج معالجہ کی سہولتیں ہر پاکستانی کو اپنے گھر کے دروازے پر حاصل ہوں۔جہاں تک لاٹری کے جائز ہونے کا تعلق ہے تو بیماریوں کے علاج کے لئے علمائے کرام اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔دس نئے شہر آباد کرنے کےلئے

سرکاری زمین مختص کی جائے، وہاں سڑکیں، بجلی،گیس وغیرہ لگانے کا کام شروع کیا جائے۔ایک شہر میں ایک لاکھ مکانوں کے پلاٹ بنائے جائیں۔یہ دس لاکھ پلاٹ ایک سال میں فروخت ہو سکتے ہیں۔ان سے ہونے والی آمدنی پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کر سکتی ہے۔آخری مشورہ،وہ تمام ادارے جو خسارے میں ہیں انہیں فوری طور پربین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کردیاجائے۔البتہ خریدنے والی کمپنی میں اکاون فیصد شیئر پاکستانیوں کے ہونے چاہئیں۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…