پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

یہ اشتہار نہیں نوحہ ہے! ’’ماں کی تلاش‘‘ برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر بیٹے نے پاکستان کے بڑے اخبار میں دل ریزہ ریزہ کر دینے والا اشتہار شائع کروا دیا، پڑھ کر کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟

datetime 30  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوز ڈیسک) یہ اشتہار نہیں نوحہ ہے! ’’ماں کی تلاش‘‘ برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر بیٹے نے پاکستان کے بڑے اخبار میں دل ریزہ ریزہ کر دینے والا اشتہار شائع کروا دیا، یہ اشتہار موقر روزنامہ ایکسپریس کے کراچی ایڈیشن میں 28 نومبر کو چھپا، اس اشتہار میں بیٹے ڈاکٹر ذیشان سبحانی نے اپنی والدہ کی تلاش کے لیے لکھا، وہ لکھتے ہیں کہ میں ڈاکٹر ذیشان سبحانی عرف شانی ولد قمر الزمان سبحانی،

ابتدائی رہائش A-399 ، بلاک ڈی، نارتھ ناظم آباد کراچی، ابتدائی تعلیم عظیم چلڈرن پیراڈائز سکول کے ڈی اے چورنگی نارتھ ناظم آباد سے حاصل کی اور اسی سکول سے 1988 میں میٹرک کیا، آدم جی سائنس کالج پٹیل پاڑہ کراچی سے 1990ء میں انٹر کیا، میڈیکل کی تعلیم 1996ء میں DOW میڈیکل اور سول ہسپتال کراچی سے مکمل کی بعدازاں میں ملک سے باہر چلا گیا اور تاحال اپنی فیملی کے ہمراہ ملک سے باہر ہی مقیم ہوں، مجھے اپنی والدہ محترمہ شائستہ اختر (بلی والی آنٹی) کی تلاش ہے، برسوں گزر گئے جب میری والدہ مُکا چوک عزیز آباد ایف بی ایریا کے پاس اور Wells bakery کی پچھلی گلی میں رہتی تھیں اور پھر وہاں سے منتقل ہو گئیں، اب مجھے ان کی رہائش سے متعلق کوئی علم نہیں، اس اشتہار کے ذریعے میں تمام افراد سے التماس کرتا ہوں کہ اگر کسی بھی شخص کو میری والدہ سے متعلق کوئی معلومات ہوں تو مطلع فرمائیں، آخر میں انہوں نے اپنا نمبر اور قریبی دوست کا نمبر دیا ہوا ہے۔ حیرت کی بات ہے اس شخص کو 22 سال بعد اپنی والدہ کی یاد آئی اور سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اس کا اپنی والدہ سے رابطہ کیوں نہ رہا، اگر اس شخص کا والدہ سے رابطہ رہتا تو اسے اپنی والدہ کی پل پل کی خبر ہوتی کہ وہ کس حال میں ہیں زندہ ہیں یا مر چکی ہیں، جوان ہونے اور اپنا گھر بسا لینے کے بعد اولاد اپنے والدین کو کیوں بھلا دیتی ہے وہ والدین جو اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں، اس کے پیشاب والے گیلے

بستر پر خود سوتے ہیں اور اسے سوکھی جگہ پر سلاتے ہیں، اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر بچے کی خواہشیں پوری کرتے ہیں، کیا بڑھاپے میں یہی صلہ ہے کہ ان کو اکیلا چھوڑ دیا جائے، کاش اولاد والدین کے رتبے کو سمجھے اور انہیں وہ عزت دے جس کے وہ حقدار ہیں، ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں، جب والدین اپنے بچے کی انگلی پکڑ کرچلا سکتے ہیں تو بچے والدین کا ہاتھ تھام کر ان کا سہارا کیوں نہیں بن سکتے۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…