اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جنگ گروپ کے رپورٹر کا چیف جسٹس سے متنازعہ سوال ، چیف جسٹس نے سب کے سامنے ہی رگڑا لگا دیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان ڈیمز فنڈز کی فنڈ ریزنگ مہم کے سلسلے میں برطانیہ میں موجود ہیں جہاں ان کی پاکستانی صحافتی اداروں سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ ایک نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جہاںانہوں نے صحافیوں کے
انتہائی چبھتے ہوئے اور سخت سوالوں کا جواب دیا۔ چیف جسٹس سے جنگ گروپ کے ایک صحافی نے سوال کیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو عدالتوں سے نکال دیا جاتا ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان سخت برہم ہو گئے اور انہوں نے اس صحافی سے اس کے ادارے کا نام پوچھا جس پر صحافی نے بتایا کہ وہ جنگ گروپ سے وابستہ ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ نے انتہائی سنسنی خیز بیان دیا ہے اور ایسا پاکستان پر کچھ بھی نہیں ہے، میں آپ کے سوال کو مسترد کرتا ہوں ۔ آپ بالکل بھی ایسا تاثر مت دیں ، ہم اپنے بچوں کو اوورسیز کو سینے سے لگاتے ہیں، آپ کیا بات کر رہے ہیں کہ ہم ان کو نکال دیتے ہیں، آپ کی بات قطعاََ غلط ہے اور اگر ایسی بات ہے تو آپ ثبوت کیساتھ اسے میرے پاس پیش کریں۔ بعدازاںچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے سما کے بیوروچیف لندن کوثر کاظمی نے سوال کیا کہ آپ کے برطانیہ کے مختلف شہروں میں ڈیمز فنڈز کے حوالے سے دورے نہایت کامیاب رہےاور اوورسیز پاکستانیوں نے آپ اور وزیراعظم صاحب کی اپیل پر ڈیمز فنڈز میں رقم جمع کروانے کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جہاں اس حوالے سے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں وہیں ناقدین بھی اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں سوشل میڈیا کے اوپر خصوصاََ کہ بطور چیف جسٹس کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ موجودگی، جیسے یہاں برطانیہ
میں ایک پارٹی سے وابستہ لوگ آپ کے اردگرد نظر آئے تو لوگوں نے ان کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر تنقید کی، اور اب جب آپ واپس پاکستان جائیں گے تو جہاں ایک طرف آپ کی تعریفیں ہونگی تو یہ ناقدین بھی آپ کا پیچھا کرینگے، تو یہ بہتر ہو گا کہ آپ ان کو یہاں ہی جواب دے کر جائیںجس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ کیا آپ اپنے چیف جسٹس کو اتنا کمزور اور جانبدار سمجھتے ہیں ، یہ ہے آپ لوگوں کا اپنے چیف جسٹس سے متعلق خیال، یہ تکڑ(ترازو)ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے ، یہ تکڑ(ترازو)نہیں ہل سکتا جس پر وہاں موجود لوگ چیف جسٹس کے اس جواب پر بے اختیار تالیاں بجانے پر مجبور ہو گئے۔