اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر 2009ء کے مطابق پاکستان میں بولی جانی والی 35 فیصد زبانوں کو خاتمے کا خطرہ لاحق ہے‘مادری زبانوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 28 ویں نمبر پر ہے
اگر یہ کہا جائے کہ انسان کا سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے تو غلط نہ ہو گا ‘ ہم دراصل زبان کے ذریعے ہی اپنی ہستی اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان کا کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم ہے۔
انسان کی ترقی کی بنیاد ہی زبان ہے کیونکہ زبان کے بغیرعلم کی قوت ممکن نہیں اور اس کے ذریعے سے ہی ہم کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اُٹھاسکتے ہیں ۔زبان کی اہمیت کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی قوم کسی دوسری قوم کی زبان سیکھ تو سکتی ہے مگرتخلیق نہیں کر سکتی ۔ دنیا میں پانچ ہزار سے سات ہزار سال تک کی تاریخ کو کسی نہ کسی صورت میں لکھا گیا‘ آپ جب بھی کسی سے مادری زبان میں بات کریں گے تو یہ بنیادی طو رپر آپ کے علاقے کو ظاہر کر دے گی ۔پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک اہم ترین ملک ہے یہاں 18کروڑ لوگ بستے ہیں اور 77 مختلف زبانیں بولتے ہیں جبکہ ان میں سے 72 زبانیں مقامی اور قدیم ہیں۔ سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد لوگ پنجابی‘ 12 فیصد سندھی‘ 10 فیصد سرائیکی‘ 8 فیصد پشتو‘ 8 فیصد اردو‘ 3 فیصد بلوچی‘ 2 فیصد ہندکو‘ایک فیصد براہوی اور 8 فیصد لوگ انگریزی و دیگر چھوٹی زبانیں بولتے ہیں۔
اردو:پاکستان کی قومی زبان ہونے کے علاوہ اسے یہ درجہ بھی حاصل ہے کہ یہ پاکستان کے قریباََ تمام ہی علاقوں میں سمجھی اور بولی جاتی ہے اور یہ قومی سطح پر رابطے کی زبان بھی ہے۔
>انگریزی:پاکستان کی غیر اعلانیہ سرکاری زبان ہے جو پاکستان کے سرکاری اداروں‘ عدالتوں اور دفاترمیں استعمال کی جاتی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ انگریزی بطور زبان پاکستان میں رائج ہے تو یہ کچھ صحیح نہیں ہوگا کیونکہ انگریزی سمجھنے والے اگرچہ موجود ہیں لیکن اکثر اوقات بحث ومباحثہ یا گفتگواردو زبان میں ہی ہوتی ہے ۔
پنجابی:پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پنجابی زبان بولنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 41فیصد ہے ‘پنجاب میں 75فیصد‘ سندھ میں 6فیصد‘اسلام آباد میں 71فیصد‘ بلوچستان میں 3فیصد‘ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 1فیصد شرح ہے۔ پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والے صوبہ پنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں موجود ہیں۔
پشتو: 16فیصد پاکستانیوں کی مادری زبان پشتو ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے اگر چہ مختلف علاقوں میں اس کا لہجہ بھی دیگر زبانوں کی طرح مختلف ہے مگر بنیادی طور پر 17مختلف مشہور لہجے ہیں۔ پشتو صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ پاکستان کے دیگرصوبوں پنجاب‘بلوچستان‘ سندھ ‘ حیدر آباد اور کراچی میں بولی جاتی ہے جبکہ صرف کراچی میں 7لاکھ سے زائد افراد پشتو بولتے ہیں اوریہ کراچی کی کل آبادی کا25فیصد ہے۔
سندھی:سندھی زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سب سے پہلے قرآن پاک کا ترجمہ سندھی زبان میں ہی کیا گیا جو بارہویں صدی عیسوی یا اس سے بھی پہلے کیا گیا۔ دو کروڑ سے زائد لوگوں کی مادری زبان ہے جبکہ اس کی سب سے بڑی تعداد صوبہ سندھ میں ہے ‘ یہ اس کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ کراچی میں 30لاکھ ‘ حیدر آباد میں دس لاکھ اور لاڑکانہ میں پانچ لاکھ افراد سندھی زبان بولتے ہیں۔ سندھی زبان کے کل 52حروف تہجی ہیں ۔
بلوچی: پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بولی جانے والی اہم ترین زبان ہے ۔ صوبہ بلوچستان کی سرحدوں سے متصل تمام اضلاع میں بلوچی بولنے والے بڑی تعداد میں مقیم ہیں جبکہ پڑوسی ملک ایران میں بھی بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 19صدی سے پہلے بلوچی زبان غیر تحریر شدہ زبان تھی۔ بلوچی بولنے والے سندھ اور صوبہ پختونخوا میں بھی ہیں تاہم ان کے لہجے اور بلوچستان میں رہنے والوں کے لہجے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
پوٹھوہاری:پنجاب کے خطہ پوٹھوہار کی اہم زبان ہے‘ اگرچہ اس کے بھی کئی لہجے سننے کو ملتے ہیں تاہم راول پنڈی ‘ گوجر خان اور مری کے کئی علاقے پوٹھوہاری زبان کی راجدھانی ہیں۔
براہوی: ریاست قلات کے مرکز اور اس کے ارد گرد بولی جانے والی زبان جسے بلوچی لوگ’’کرگالی‘‘کہتے ہیں مگر یہ براہوی زبان ہے۔ ماہرین لسانیات کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ براہوی زبان بنیادی طور پر قدیم ہندوستانی قوم دراوڑ سے زیادہ متاثر ہے اور اپنے اس موقف کو مزید مضبوط کرنے کے لئے براہوی زبان میں قدیم دراوڑی زبان کے الفاظ کی بھی نشان دہی کرتے ہیں ۔مینگل ‘ بزنجو‘رئیسانی‘ لہڑی‘ شاہوانی‘محمدشہی‘ بنگلزئی‘میروانی‘کرد‘قلندرانی‘
بلتی: صوبہ گلگت بلتستان ‘ شمالی علاقہ جات اور لداخ کے بہت سے مقامات میں بھی بولی جانے والی زبان بلتی ہے۔ کراچی ‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی اور لاہور میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ اعدادو شمار کے مطابق قریبا ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افراد بلتی زبان بولتے ہیں ۔ لداخی اور بلتی کے قریبا 90فیصد اِسم ایک جیسے ہیں۔یہ سینہ بہ سینہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔
بروشسکی: یہ زبان بھی گلگت اور بلتستان میں ہی بولی جاتی ہے۔ بروشسکی زبان بولنے والوں کی تعداد بہت کم ہے‘اور یہ زبا ن خطرے سے دوچار ہے۔
جگدالی: ریاست لسبیلہ اور ریاست خاران کی سابقہ ریاستوں کے کچھ قبائل میں بولی جاتی ہے ۔ بعض ماہرین لسانیات اس کو لاسی زبان کا ہی حصہ سمجھتے ہیں جبکہ بعض اس کو علیحدہ زبان شمار کرتے ہیں۔ لوڑی کرخ اور چاکو کے جاموٹ اور چھٹا قبیلے جگدالی زبان بولنے والے قبائل میں شامل ہیں ۔
سرائیکی:قدیم تاریخ دان اور اردو زبان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو زبان بنیادی طور پر پہلے سرائیکی زبان ہی کا جزو تھی۔ سرائیکی پاکستان کی اہم ترین علاقائی زبانوں میں سے ایک ہے مگر بعد میں تاریخی ‘سیاسی اور جغرافیائی عوامل کے باعث اردو نے اپنی علیحدہ شناخت منوا لی کیونکہ اُردو نے ہر زبان کو اپنے اندر سمو لیا۔
شنا:گلگت بلتستان میں او ر شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ شنا زبان کے بہت سے لہجے ہیں ۔ گلگت اور بلتستان میں بڑی بڑی پہاڑی وادیوں میں مقیم آبادیوں میں جو لہجے ہیں وہ شنا خاص‘ شنا بگروٹی‘ شناکوہستانی وغیرہ ہیں اور یہ بڑی حد تک پشتو زبان سے متاثر ہے۔
ہندکو:لسانیات کے بعض ماہرین سرائیکی اور ہندکو کے مابین کافی لسانی قربت تلاش کرتے ہیں‘ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ہزارہ جات میں زیادہ بولی جاتی ہے جبکہ اس کے بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد سندھ کے شہر کراچی میں بھی مقیم ہیں جبکہ بعض لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں بولی جانے والی کوہاٹی زبان دراصل ہندکو زبان ہی کی ایک شکل ہے۔
میمنی: ماہرین لسانیات کے نزدیک میمنی زبان سندھی زبان ہی کی ایک شاخ ہے جو سندھ میں مقیم میمن قوم بولتی ہے ۔ اگرچہ سندھی زبان کو میمنی زبان میں ڈھلنے میں صدیاں لگیں مگر مینی زبان وجودمیں آگئی۔ مینی زبان میں آج بھی سندھی زبان کے بے انتہا الفاظ شامل ہیں جبکہ کوئی بھی میمن جو سندھ میں آباد ہے بہت آسانی سے سندھی زبان بولنے لگتا ہے۔دیگر زبانوں کی مانند میمنی زبان کے بھی بہت سے لہجے بتائے جاتے ہیں۔
کشمیری : یہ آزاد جموں وکشمیر میں بولی جاتی ہے جبکہ کراچی میں مقیم کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی کشمیری زبان بولتی ہے۔ان کے علاوہ پاکستان میں چھوٹی چھوٹی بہت سی زبانیں ہیں جو مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔
گجراتی:یہ زیادہ تر کراچی اور حیدرآباد میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کراچی سے گجراتی زبان کے مختلف اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ مثلاً’’ ملت گجراتی‘‘ ہے اور اسے معروف صحافی عثمان ساقی شائع کرتے ہیں اس کے علاوہ ’’ڈان گجراتی‘‘ مشہور ڈان گروپ کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے۔
دیہواری: دیہواری زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بگڑی ہوئی فارسی ہے یا قدیم فارسی ہے جس میں براہوی اور سندھی زبان کے الفاظ شامل ہو گئے ۔ مستونگ اور قلات کے مختلف دیہوار قبائل کے افراد دیہواری زبان بولتے ہیں۔
لاسی: یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے‘ لاسی زبان دراصل سندھی اور بلوچی کے ملاپ سے وجود میں آئی اور یہ سندھی زبان کے اثرات سے نہ بچ سکی گویا ایک طرح سے یہ بلوچستان کی سندھی زبان ہے ۔
کافری: یہ شمال مغربی علاقے میں واقع کافرستان کے علاقے کے باشندے بولتے ہیں جو اپنے آپ کو سکندر اعظم یا سکندر یونانی کی فوج کی اولادوں میں شمار کرتے ہیں۔
کھیترانی:یہ بلوچستان کے ضلع کھیتران میں مقیم کھیتران قبیلے کی زبان ہے ۔ اس طرح یہ پاکستان کی ان زبانوں میں سے ایک ہے جو صرف ایک قبیلے یا ضلع کی زبانیں ہے۔ ماہرین لسانیات کے بقول یہ سرائیکی سے زیادہ متاثر ہے۔
ان کے علاوہ پاکستان میں عربی ‘فارسی‘ ترکی‘ ازبک‘ چینی اور برمی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر 2009ء کے مطابق پاکستان میں بولی جانی والی 35 فیصد زبانوں کو خاتمے کا خطرہ لاحق ہے جبکہ مادری زبانوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 28 ویں نمبر پر ہے۔