اسلام آ با د (آ ئی این پی)وز یر خا رجہ شا ہ محمود قر یشی نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ہی ختم ہوگی، پاکستان کا مفاد سب سے مقدم ہے،خارجہ پالیسی کو از سر نو دیکھا جائے گا،خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے،چین پا کستان اقتصا دی را ہداری ( سی پیک) ایک اہم منصوبہ ہے سی پیک اہم ہونے کے ساتھ ایک گیم چینجر ہے،ملکی مفاد میں
حنا ربانی کھر اور خواجہ آصف سے بھی رجوع کروں گا، خارجہ امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کروں گا،ایم ایم اے کے رہنما کو بھی مدعو کروں گا، کچھ طاقتیں پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں،4 سال پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں رہا، وزیر خارجہ نہ رہتے ہوئے ایسی طاقتوں کو موقع ملا،خارجہ پالیسی کمزور ہو تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے،محبت، دوستی اور ایک نئے آغاز کا پیغام لے کر افغانستان جانا چاہتا ہوں۔ افغان عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے، افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا، پا کستان اور بھا رت کے ما بین کشمیر ایک مسئلہ ہے ،ایڈونچر کا کوئی فائدہ نہیں، دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا،واجپائی صاحب کے اسلام آباد مذاکرات تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج پھر کہتا ہوں ہمیں بامعنی مذاکرات کی ضرورت ہے ،پیر کو یوان صدر میں عہدے کا حلف لینے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دفتر خارجہ پہنچے،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین پا کستان اقتصا دی را ہداری ( سی پیک) ایک اہم منصوبہ ہے سی پیک اہم ہونے کے ساتھ ایک گیم چینجر ہے،ملکی مفاد میں حنا ربانی کھر اور خواجہ آصف سے بھی رجوع کروں گا، خارجہ امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کروں گا،ایم ایم اے کے رہنما کو بھی مدعو کروں گا، کچھ طاقتیں پاکستان کو تنہائی کی
طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں،4 سال پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں رہا، وزیر خارجہ نہ رہتے ہوئے ایسی طاقتوں کو موقع ملا،خارجہ پالیسی کمزور ہو تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے،پاکستان کے مفادات سب سے اولین ہیں خارجہ پالیسی پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ہی ختم ہوگی، ہماری سوچ کا محور شہریوں کی زندگی میں بہتری لانا ہے کچھ عرصے سے پاکستان کو تنہائی کی طرف
دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ملک کا وزیر خارجہ ملک کا چیف ڈپلومیٹ ہوتا ہے حکومتی پالیسی پر اتفاق رائے کیا جائے گا، ملک سے غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے،سابقہ حکومت کے وزراء خارجہ سے اتفاق رائے کے لئے رجوع کروں گا دورہ افغانستان کا ارادہ ہے،ہندوستان کی وزیر خارجہ سے کہنا چاہوں گا ہم نہ صرف دو ہمسائے ہیں بلکہ ہم دونوں ایٹمی قوتیں ہیں
ہمارے دیرنیہ مسائل ہیں ان مسائل سے آپ بھی واقف ہیں اور ہم بھی ہیں، افغانستان کے وزیر خارجہ کو فون کروں گا ان مسائل کو حل کرنے کے لئے گفت و شنید کے علاوہ اور کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ہم روٹھ کر ایک دوسرے سے منہ نہیں پھیر سکتے ہمیں حقائق کا سامنا کرنا ہے، کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے ہم دونوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں، واجپائی صاحب کے اسلام آباد مذاکرات تاریخ کا حصہ ہیں۔
آج پھر کہتا ہوں ہمیں بامعنی مذاکرات کی ضرورت ہے، اٹل بہاری واجپائی کے انتقال پر پاکستان کے وزیر قا نو ن کو بھیجا گیا اٹل بہاری لاہور اور اسلام آباد آچکے تھے انہوں نے خود کہا تھا کہ دونوں ممالک کا کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں ایک نہ منقطع ہونے والی بات چیت کی ضرورت ہے جو ایک دانشمندانہ راستہ ہے ہمیں اپنے رویے بدلنے ہیں یہ تقاضا ہے پاکستان کا ہماری سوچ اور
اپروچ مختلف ہوگی ہمارے رویوں میں تبدیلی آنی چاہئے۔ اخلاق سے کبھی مار نہیں ملتی قوموں پر آزمائش آتی ہے میرے علم میں ہے کہ ہمارے کیا چیلنجز ہیں۔ بحیثیت پارٹی کے وائس چیئرمین ہونے کے ہم نے جو منشور میں کہا اسے آگے لے کر بڑھنا ہے۔ مجھے پتہ ہے دفتر خارجہ میں بڑے پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگ موجود ہیں میں ان لوگوں سے رہنمائی حاصل کرتا رہوں گا۔ ان سے مشاورت
ہر قدم پر کی جائے گی ہمارے بہت سے سفارت کار مختلف شعبوں میں ہر قسم کی مہارت رکھتے ہیں مشاورت کا راستہ ایک کامیابی کا راستہ ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرکے کامیابی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ نریندر مودی نے خط لکھ کر عمران خان کو مبارکباد پیش کی ہے خط میں انہوں نے گفت و شنید کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا پیغام دیا ہے۔ میری سوچ یہ ہوگی کہ خارجہ پالیسی
کو ساتھ لے کر چلا جائے پاکستان کے مفاد پر سب کو یکسو ہو کر چلنا ہوگا۔ مجھے ماضی میں امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا میں نے ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام کیا مجھے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہے۔ میں ان ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ سے بات چیت کروں گا ان سے کہوں گا ملک بڑے بھی ہوتے ہیں ملک چھوٹے بھی ہوتے ہیں لیکن عزت و وقار سب سے اہم ہوتا ہے۔ ممیں ان کی سن کر اپنا موقف بھی پیش کروں گا۔ عزت و احترام کے ساتھ کام کرم کریں گے اور چیزوں کو دیکھیں گے خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں مرتب کی جائے گی۔ سی پیک ایک اہم منصوبہ ہے سی پیک اہم ہونے کے ساتھ ایک گیم چینجر ہے۔