لاہور (نیوز ڈیسک) مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے صاحبزادے جنید صفدر کو سیاست میں لانے اور پھر ن لیگ کا سربراہ بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا پارٹی سے اثر ختم کرنے کے لیے حسن اور حسین نواز نے بھی اپنے بھانجے کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک موقر قومی اخبار کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے قریبی لوگوں کا ماننا ہے
کہ 13 جولائی کو شہباز شریف کو ریلی کی قیادت کرتے ہوئے لاہور ائیر پورٹ پہنچنا چاہیے تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز کو یہ خدشہ بھی درپیش ہے کہ ان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے پارٹی پالیسی پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت ان کے ہم خیال لوگوں کا غلبہ ہو گیا ہے لہٰذا اس کے توڑ کے لیے مریم نواز نے اپنے صاحبزادے جنید صفدر کو میدان میں اُتانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لندن میں موجود کچھ ذرائع نے بتایا کہ برطانوی یونیورسٹی میں زیر تعلیم جنید صفدر کی ستمبر تک چُھٹیاں ہیں لہٰذا پاکستان آ کر سیاست میں ڈیبیو کرنے سے ان کی تعلیم ہرگز متاثر نہیں ہوگی، جنید صفدر حسن نواز اور حسین نواز کے مشورے پر پاکستان پہنچے ہیں اور پاکستان آمد پر انہیں مریم نواز کے کیمپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنید صفدر کی لاہور آمد پر لیگی کارکنان نے ان کا پُر تپاک استقبال کیا۔لیگی رہنماؤں کا خیال ہے کہ الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو زیادہ ریلیف ملنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے اسی لیے جنید صفدر کے ذریعے مؤثر انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل لیگی رہنماؤں کا خیال تھا کہ
وہ نواز شریف اور مریم نواز کے جیل میں ہونے کی وجہ سے بھرپور انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں سب سے زیادہ پریشانی اپنے قابل اعتماد لوگوں سے رابطے منقطع ہونے پر ہے،جنید صفدر کو لندن سے بُلوانے کا مقصد یہی ہے کہ وہ اپنے نانا اور والدہ سے گائیڈ لائن لے کر سوشل میڈیا ٹیم اور پارٹی کے دیگر امور چلائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے شہباز شریف اور
حمزہ شہباز کی لاہور میں استقبالی ریلی سے متعلق ہفتے کی شب ملاقات میں جائزہ لیا جس کے بعد ہی جنید صفدر کو پاکستان بُلانے کا فیصلہ کیاگیا۔ جنید صفدر کو مریم نواز کا پیغام ان کی صاحبزادی مہر النسا اور داماد راحیل منیر کے ذریعے لندن پہنچایا گیا۔ لیگی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ترقی کے بیانیے اور مستقبل کے حوالے سے سیاسی حکمت عملی اور نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانئے میں اب بھی فرق موجود ہے۔