قصور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کے میزبان نے اینکر اقرار الحسن سے جب سوال کیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں تو اس کے جواب میں اقرار الحسن نے کہا کہ میں اس وقت زینب کے گھر کے سامنے ہوں جو اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہے، اقرار الحسن نے کہا کہ میرے دائیں جانب گلی میں اس بچی کی لاش کو پھینکا گیا تھا اور حیران کن بات یہ ہے کہ میرے دائیں جانب مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر اسی ایریے سے بچی
کو اغوا کیا گیا اور یہی کہیں اس بچی کو پانچ سے چھ دن رکھا گیا یا قریب کہیں رکھا گیا اور پھر یہیں پچھلی گلی میں قتل کرکے پھینک دیا گیا اور جس جیو فینسنگ اور جس ڈی این اے ٹیسٹنگ اور جن پانچ سو لوگوں کی تفتیش کا صبح سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، وہ قاتل تو ان دو گلیوں میں ہی جھل دے رہا تھا، قاتل ایک گلی سے بچی کو اٹھاتا ہے اور پھر پانچ چھ دن بعد دوسرے گلی میں قتل کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کیسے ناک کے نیچے سے بچی کو اغوا کر کے لے گیا اور پھر گھر کے کچھ پاس ہی بچی کی لاش بھی پھینک گیا اور کسی کو علم تک نہ ہوا، یہاں تک کہ پولیس بھی بے خبر رہی۔ اقرار الحسن نے کہا کہ ثناء بچہ صاحبہ بھی یہ ذرا غور سے سنیں ، یہاں سے قریب ہی گنڈاسنگھ کا تھانہ ہے وہاں پر ایک ایس ایچ تعینات تھا جو پچیس ہزار رشوت لے رہا تھا، ہم نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا، اس وقت کے ڈی پی او نے اسے معطل کیا تھا، آج جس علاقے میں زینب قتل ہوئی ہے اس تھانے میں وہی ایس ایچ او تعینات تھا، وہ کیسے زینب کے قاتلوں کو پکڑ سکتا تھا، یہ ایس ایچ او جعلی ایف آئی آر درج کرنے کے پچیس ہزار روپے وصول کرتاتھا۔ 25 ہزار روپے لینے والے آدمی سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ زینب کو کیسے اور کہاں سے بچاتا؟ یہی پنجاب پولیس ہے جب ایک بچی سے اجتماعی زیادتی ہوئی، اس سے پولیس نے پیسے مانگ لیے، اس کے بھائی کو روزانہ دودھ پتی اور چائے منگوانے پر لگا دیا گیا۔ جب اس کی ایف آئی آر کاٹی گئی تو مٹھائی کا تقاضا کر دیا گیا، جس پنجاب پولیس کی یہ حالت ہے اس سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ کسی کی بچی کو انصاف دلائے گی۔