سکھر /ا سلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب) کے چیئرمین کیلئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے نام پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔روہڑی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ جماعت اسلامی ٗپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کی جانب سے تجویز کیے گئے نام اچھے تھے تاہم مشاورت کے بعد جسٹس جاوید اقبال کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ جسٹس جاوید اقبال اچھی شہرت کے حامل ہیں اور ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ کے طور پر اچھا کام کیا تھا۔انھوں نے اس انتخاب پر بہتری کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ توقع کرتا ہوں کہ جسٹس جاوید اقبال اپنے نئے انتخاب کے بعد ملک کی بہتر خدمت کریں گے اورپاکستان جمہوری نظام کے تحت انتخابات کے سلسلے کو جاری رکھ پائیگا۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ امید ہے کہ پی پی پی کے رہنما منظور وسان کے 2018 میں انتخابات نہ ہونے کا خواب سچا ثابت نہ ہوگا۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے انتخابی بل 2017 پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی نے حال ہی میں منظور ہونے والے بل کو چیلنج کر دیا ہے لیکن پی ٹی آئی کا سیاست کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پی پی پی نے انتخابی بل پر قانونی طریقہ کار کو اپنایا ہے۔ادھر بی بی سی کے مطابق جسٹس جاوید اقبال کو چیئر مین نیب تعینات کر نے کے حوالے سے وزیر اعظم ہاؤس کے ذمہ داران نے بھی تصدیق کی ہے یاد رہے کہ قومی احتساب آرڈیننس کے مطابق نیب چیئرمین کا انتخاب وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوگا جس کے تحت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ کے درمیان پہلا رابطہ 13 ستمبرکو ہوگیا تھا۔
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ نیب چیئرمین کے انتخاب کیلئے قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔خیال رہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین قمرزمان چوہدری کی چار سالہ مدت 10 اکتوبر کو ختم ہورہی ہے جس کے بعد نئے چیئرمین عہدہ سنبھال لیں گے۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا نام نیب کے چیئرمین کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے جو تین نام دئیے گئے تھے
اس میں بھی شامل تھا جبکہ دیگر دو ناموں میں جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر اور سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد بھی شامل تھے۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نیب کے دوسرے چیئرمین ہوں گے جن کا نام حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دیا ہے۔اس سے پہلے نیب کے موجودہ چیئرمین قمر زمان چوہدری کا نام بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے دیا تھا جس پر حکومت نے اتفاق کیا تھا۔حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تین نام دئیے تھے
جن میں شعیب سڈل، جسٹس ریٹائرڈ فلک شیر اور خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکرٹری ارباب شہزاد شامل تھے۔حکمراں جماعت کی طرف سے نیب کے چیئرمین کے لیے جو تین نام دیے گئے تھے ان میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان کے علاوہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج چوہدری اعجاز بھی شامل تھے۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال فروری 2000 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کے دو ماہ کے بعد اْنھیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
بی بی سی کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اْٹھایا تھا۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد اْنھیں پاکستان کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق درخواستوں کے بارے میں حکم دیا تاہم اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ جب تک پرویز مشرف اپنی وردی نہیں اتاریں گے جس کا اْنھوں نے قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا، اس وقت تک الیکشن کمیشن ان انتخابات کا اعلان نہیں کریگا۔اس کے بعد تین نومبر 2007 میں پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ملک میں ایمرجنسی لگا دی تھی۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس سات رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے ایمرجنسی کے فوری بعد یہ حکم دیا تھا کہ انتظامیہ ان احکامات کو تسلیم نہ کرے اور نہ ہی کوئی جج عبوری آئینی حکمنامے پر حلف اْٹھائے۔ اس عداتی حکم نامے کے بعد جاوید اقبال سمیت دیگر ججز کو ان کے گھروں میں ہی نظر بند کردیا گیا تھا۔جاوید اقبال ان ججز میں بھی شامل تھے جنھیں وکلا تحریک کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2009 میں بحال کردیا تھا۔2011
میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے معاملے کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے عدالتی کمیشن کی سربراہی بھی کی۔