لاہور ( این این آئی) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ناتواں انسان ہونے کے ناطے تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ 1997ء سے لے کر آج تک میرے تین ادوار میں اگر میری ذات کے خلاف سرکاری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو قوم کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا،خدانخواستہ میرے مر جانے کے بعد بھی اگر ایک پیسے کی کرپشن سامنے آجائے تو قبر سے میری لاش نکال کرلٹکا دیں،
عوام کے منتخب خادم اعلی پر بے بنیاد الزام لگانا اورخود فرشتے بن کر دوسروں پر طعنے زنی کرناگندی گیم ہے،ایک ٹی وی چینل اے آر وائی جو کچھ دنوں سے ملتان میٹروبس پراجیکٹ کے حوالے سے بے بنیاد اورجھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کررہا ہے ،پنجاب حکومت اورخاص طورپر مجھے جھوٹ، دروغ گوئی اوربدترین الزام تراشی کا نشانا بنایا گیا ہے ،اے آر وائی کے جن حضرات نے یہ دروغ گوئی کی ہے ان کے نام ارشد شریف،سمیع ابراہیم اورعارف حمید بھٹی ہیں ،میں نے پہلے تو اس معاملے کو خود ہینڈل کرنے سے پرہیز کیااوراس غلط بیانی اوردروغ گوئی کا جواب حکومت پنجاب کے ذمہ دارساتھیوں نے دیالیکن گزشتہ دو تین روز سے بعض سنجیدہ ٹی وی چینلز بھی اس معاملے میں پڑ گئے ہیں ،بعض محترم اینکر پرسنز اورٹی وی چینلزکے اس معاملے میں آنے پر میں نے فیصلہ کیاکہ میں خود حقائق سامنے لاؤں تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو،اے آر وائی ٹی وی چینل کے پیچھے وہ لوگ ہیں جنہوں نے صوبے اورملک کی اربوں روپے مالیت کی زمینوں پر قبضے کیے اوربیواؤں،یتیموں اوربے سہارا لوگوں کی محنت کی کمائی کولوٹا اورسیاسی بنیادوں پر اربوں رورپے کے قرضے معاف کر اکے غریب قوم کا حق چھینا،یہ ٹی وی چینل قوم اورآنے والی نسلوں کو کیا یہ پیغام دے رہا ہے کہ ملک کے سیاستدان کرپٹ ہیں لہٰذا یہاں سرمایہ کاری نہ کی جائے اوردوست ممالک تعاون نہ کریں ،یہی وہ خائن ہیں جو قوم کی سوچوں کو لوٹ رہے ہیں ،
میں ان خائنوں کا آخری دم تک مقابلہ کروں گاکیونکہ یہ پاکستان 21کروڑ عوام کا ہے،قبضہ مافیا ،قرض خوروں،لوٹ مار کرنے والوں اوران خائنوں کانہیں،یہ ملک لاکھوں قربانیوں اورخون کے دریاعبور کر کے حاصل کیاگیا ہے ،یہ قائدؒ اوراقبالؒ کا پاکستان ہے اوربانیان پاکستان کے تصورات کے مطابق اسے عظیم سے عظیم تر بنائیں گے،مخالفین مجھ پر جتنے چاہیں نشتر چلائیں،
میں ان کے تمام وار سہو ں گااوران کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔ان خیالات کااظہار وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے بدھ کے روز پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ بہتان تراشوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ ملتان میٹروبس کے منصوبے میں 3ارب روپے کی رشوت اورکک بیکس لئے گئے ہیں ۔ کاش دوسرے سنجیدہ چینلز اس معاملے کے حوالے سے پنجاب حکومت سے حقائق جاننے کیلئے رابطہ کرتے اور اگرانہیں کسی بارے میں علم نہ تھا تو یہ لوگ ہم سے رابطہ کرتے ۔
اے آر وائی نے الزام تراشی کر کے پنجاب کے عوام ،دوست ممالک اورمیرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ان کا مقصد کیا تھا، وہ اللہ جانتا ہے ۔اے آر وائی چینل نے پہلا الزام یہ لگایا ہے کہ چین کی کمپنی یابیٹ اورکیپٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن پرائیویٹ لیمٹنڈ نے ملتان میٹروبس کے پراجیکٹ میں بلواسطہ یا بلاواسطہ کام دیاگیا یا بطور سب کنٹریکٹرٹھیکہ دیاگیا۔
اس معاملے کی پوری تحقیق کی گئی اورریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ کیپٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن پرائیویٹ لیمٹنڈ کوئی رجسٹرڈ کمپنی نہیں اور سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق اس کمپنی کا کوئی اکاؤنٹ ہی نہیں ہے ۔بے بنیاد الزام لگانے والوں نے کہا کہ کیپٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن پرائیویٹ لیمٹنڈنے ملتان میٹروبس پراجیکٹ کے فیز تھری میں کام حاصل کیا ہے ۔
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملتان میٹروبس کے 9 پیکیجز تھے اور 9کنٹریکٹرز تھے اوران تمام کنٹریکٹرز نے سرٹیفکیٹ دیا ہے کہ انہوں نے اس نام کی کسی کمپنی کو نا تو کوئی سب کنٹریکٹ دیا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی بزنس کیا ہے ۔ان تمام کنٹریکٹرز نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ انہوں نے اپنے وینڈرز سے بھی اچھی طرح اطمینان کرلیا ہے اوراس نام کی کسی کمپنی کو نہ تو کام دیا گیا اورنہ ہی بطوروینڈر کوئی بزنس دیاگیا ہے۔
اے آر وائی نے یہ بھی کہا کہ حکومت پنجاب کوسکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے خط لکھا گیاجس پر پنجاب حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا اورتاخیری حربے استعمال کیے۔اس بارے میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس ضمن میں ایس ای سی پی کا پہلا خط 13فروری 2017ء کو چیف سیکرٹری کوموصول ہوااورپوری تحقیق کی بعد 13مارچ کو اس خط کا جواب دے دیا گیا۔
اے آر وائی کے مطابق شہبازشریف نے چینی کمپنی کی تعریف میں سرٹیفکیٹ دیاجس پر میرے دستخط ہیں۔اس خط کا جواب ہم نے اسی روز 16اگست کو دے دیااورہم نے لکھا کہ یہ خط جعلی اورخود ساختہ ہے۔ایسا کوئی تعریفی مراسلہ چیف منسٹر کے آفس سے جاری نہیں کیاگیا۔ یہ سرٹیفکیٹ بڑے حروف میں ہیں اورحالانکہ میں نے ساری زندگی کبھی بھی ایسے خط پر دستخط نہیں کیے۔نام نہاد تعریفی سند پر کسی کمپنی کا نام بھی تحریر نہیں ہے ،
یہ سو فیصد جعلسازی ہے اور میں بلاخوف و تردید کہتاہوں کہ یہ تعریفی سند جعلی ہے اور فراڈ ہے ۔ہم نے اس خط کا جواب اسی رات دے دیا تھا اس لئے اس میں تاخیری حربے استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہاکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے میں عوام کامنتخب نمائندہ ہوں اورپنجاب کی مقننہ کاحصہ ہوں ۔اے آروائی چینل کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بیہودہ الزام تراشی اوربہتان لگاکرعوام کے نمائندوں کا مذاق اڑائیں اورایسی الزام تراشی کے نتائج اورمنفی مضمرات جانے بغیر دوست ممالک کو یہ پیغام دیں کہ وہ ہمیں ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز نہ دیں اور یہاں سرمایہ کاری نہ کریں ۔
چین،سعودی عرب،ترکی ،مشرق وسطی اوردیگر دوست ممالک یہاں سرمایہ کاری کررہے ہیں اورہمارے منصوبوں میں تعاون فراہم کررہے ہیں اوریہ اے آروائی ٹی وی چینل ان کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان کے سیاستدان چور ہیں اوریہاں سرمایہ کاری نہ کریں ۔یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ اورمقام افسوس ہے ۔کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوکر جواب نہیں دینا۔ہم سب نے مرنا ہیں،وزارتیں ،عہدے سب کچھ یہاں رہ جانا ہے آگے صرف اعمال جانے ہیں۔
جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کے بچے بھی فاتحہ پڑھنے قبر تک جاتے ہیں ۔کفن کی کوئی جیب نہیں ہوتی ۔ہم نے دنیا سے خالی ہاتھ جانا ہے اورصرف اعمال ہمارے ساتھ جائیں گے۔اے آر وائی جھوٹ،بلیک میلنگ اورالزام تراشی کر کے نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے ؟ کیا یہ چینل عدالتوں،نوجوان نسل،ججوں ،جرنیلوں اورافواج پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان کے سیاستدان چورہیں ان پر اعتماد نہ کیا جائے، انہیں شرم آنی چاہیے اوریہ خداکا خوف کریں ۔
اقتدارپھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کی مالا ہے ۔میں ایک ناتواں اور کمزور انسان ہوں اورمیں نے ہمیشہ لاچار،غریب اوربے سہارا عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہے اورمیں گزشتہ 9سالوں سے عوام کی خدمت کررہاہوں ۔پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ جیسے پروگرام غریب عوام کیلئے شروع کیے ہیں اس تعلیمی فنڈ سے 2لاکھ کم وسیلہ بچے اوربچیاں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں اوراس تعلیمی فنڈ کے ذریعے تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹرز،انجینئرز اوربینکرز بن کر ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔
ہم عوام کو معیاری،علاج معالجہ اوربہترین تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں اورغریب کو بھی وہی معیاری ادویات مل رہی ہیں جو امیر استعمال کرتے ہیں ۔جنوبی پنجاب کی بچیوں کیلئے وظیفہ دو سوروپے سے بڑا کر ایک ہزار روپے کردیاگیاہے۔بے روزگار نوجوانوں کو 50،50ہزار روپے کے بلاسود قرضے دےئے جارہے ہیں ۔ملک کی 70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ چھوٹے کاشتکاروں کو بلاسود قرضے دےئے جارہے ہیں اورسابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی قیادت میں کسانوں کو سستی کھاد دی جارہی ہے
۔85ارب روپے سے کھیتوں سے منڈیوں تک سٹیٹ آف دی آرٹ سڑکیں بنائی گئی ہیں جس میں دیہی زندگی بدل دی ہے ۔ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے توانائی کے منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اورتوانائی کے منصوبے 20،20ماہ کے ریکارڈ مدت میں مکمل کیے ہیں ۔انشاء اللہ جلد ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گااورلوڈ شیڈنگ قصہ پارینہ بن جائے گی۔میں نے کبھی اپنی ذات کی بات نہیں کی ،ہمیشہ عوام کی بات کی ہے اورعوام کی خدمت کیلئے ہی کام کیا ہے ۔
دانش سکولز اوریونیورسٹیاں بھی عوام کو تعلیمی سہولتیں دینے کیلئے بنائی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اے آر وائی چینل برطانیہ میں ہرزہ سرائی اورجھوٹ کا مزہ چکھ چکا ہے اور وہاں آپ کا چینل بند ہوچکا ہے ،اس لئے آپ ہوش کے ناخن لیں اورجھوٹ والزام تراشی سے باز رہیں۔اے آروائی کو وہ سکینڈل بھی سامنے لانے چاہیءں جس پر عدالتیں فیصلے کر چکی ہیں ۔رینٹل پاور پراجیکٹ میں اربوں روپے کی لوٹ مار ہوئی،جب پانامہ کی بات ہوتی ہے تو عدالت فیصلہ دیتی ہے وزیراعظم استعفی دے کر گھر آجاتے ہیں ۔
سزا پانامہ کی بجائے اقامہ پر ملتی ہے ہمیں عدالتوں کا بے حد احترام ہے اورعوام کی عدالت سے رجوع کرنا ہمارا حق ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا احتساب یہاں ختم ہوجاتا ہے اگراحتساب پانامہ پر ہی ختم ہوگیا تو پھریہ احتساب کی موت ہوگی۔ملک کی ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کیلئے شفاف اور بے لاگ احتساب کا آغاز ہونا چاہیے۔پانامہ میں تواور بھی بے شمار لوگوں کے نام تھے اوراس میں ملک کے بڑے بڑے لوگوں کی اولادوں کے نام آتے تھے لیکن یہ پانامہ کا احتساب صرف ایک آدمی پر آکر رک گیا۔ا
نہوں نے کہا کہ ای اوبی آئی دوسرا کرپشن کا سکینڈل ہے جس کے چےئرمین ظفر گوندل تھے اس میں اربوں روپے کی زمینوں کا فراڈ ہوا اوریہ کیس سپریم کورٹ میں اسٹیبلش کیس ہے۔اس کیس میں ملوث لوگ آج آئین کی شک62-63ثابت کرنے کیلئے پی ٹی آئی میں جا بیٹھے ہیں کیا یہ احتساب ہے؟،اسی طرح این آئی سی ایل میں اربوں روپے کی ڈاکہ زنی ہوئی اور بیواؤں ،یتیموں،مزدووں اوربے سہارا لوگوں کی دن رات کی محنت کی کمائی کو لوٹا گیا۔بینک آف پنجاب میں بھی اربوں روپے کی ڈاکہ زنی ہوئی،
جب ہم اقتدار میں آئے تو بینک کے شےئر کی قیمت نہ ہونے کے برابر تھی،ملک میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب ،جعلی ادویات،غریبوں کا تعلیم اورصحت کی سہولتوں سے محروم ہونا،عام آدمی کی رسائی بنیادی سہولتوں تک نہ ہونے کی بڑی وجہ کرپشن اورلوٹ مار ہی ہے۔یہ تمام حقائق قوم کے سامنے آنے چاہیے اورپاکستان اسی وقت عظیم ملک بنے گا جب اس ملک میں بلاامتیاز سب کا کڑا احتساب ہوگا،زندہ قومیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم نیوکلےئر طاقت ہوں اورکشکول بھی تھام رکھا ہو،ا
یسے کام نہیں چلتا۔انہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ کے بیان پر میں نے جاندار موقف دیا۔انہوں نے کہاکہ میں نے 2010ء میں غیر ملکی امداد نہ لینے کا اعلان کیا تھااور2010ء سے پنجاب حکومت نے ایسی کوئی امداد نہیں لی جس سے ہماری عزت پر حرف آتا ہوں ۔جسٹس (ر) جمشید نے سپریم کورٹ میں لون ڈیفالٹر کی رپورٹ جمع کرائی اوراس سے پتہ چلا1971ء سے لیکر 2009ء تک پاکستان کے بینکوں سے 256ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔
یہ قرضہ مہران کی وادی کی کسی بیوہ ،بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے کسی مزدور،پنجاب کے میدانی علاقوں کے کسی یتیم بچی یا کے پی کے کے برف پوش غیورپٹھان نے نہیں لیا تھا بلکہ یہ قرضے اشرافیہ نے لیے اورمعاف کرائے۔میری پاکستان کے 21کروڑ عوام سے اپیل ہے کہ وہ اپنے حق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اگر انہوں نے اپنی آواز بلند نہ کی تو اشرافیہ اوریہ قرض خور ان کے حق پر ڈاکہ ڈالتے رہیں گے۔آپ اپنے حق کیلئے کھڑے ہوں، میں آپ کے ساتھ ہوں ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ الزام تراشی کی اس مہم میں عمران نیازی نے بھی اپنا حصہ ڈالااورموصوف نے کہاکہ وہ مجھے عدالت میں لے کر جائیں گے۔خان صاحب آپ میٹروبس سروس کو جنگلہ بس کہتے رہیں اوراس پر 70ارب روپے خرچ ہونے کا الزام لگاتے رہیں،الزام تراشی کی مہم میں آپ بھی اے آر وائی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔میں 2012ء سے کہتا آرہا ہوں کہ میٹروبس سروس پر 70ارب روپے نہیں بلکہ 30ارب روپے لگے ہیں۔خان صاحب آپ اپنا یہ الزام آج تک ثابت نہیں کرسکے ہیں ،
پھر آپ نے الزام لگایا کہ میں نے جاوید صادق سے 27ار ب روپے لئے،اسکا جواب اسی رات میں نے دے کر آپ کا منہ بند کردیا تھا ۔پھر آپ نے پانامہ کے معاملے میں الزام لگایاکہ اس کیس سے گلو خلاصی کیلئے میں نے آپ کو 10ارب روپے کی پیشکش کی ۔میں نے اس کابھر پورجواب دیا اور آپ کو نوٹس بھجوایا ۔اب عدالت میں حق عزت کا کیس موجود ہیں ،نہ تو آپ اور آپ کا وکیل پیش ہوتا ہے ۔ حالانکہ آپ نے کہاتھا کہ میں عدالت میں پول کھول دوں گا۔میں آپ کے پیچھے ہوں اور آپ آگے بھاگ رہے ہیں ۔
آپ کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا ۔انہوں نے کہاکہ جہانگیر ترین جو امیر ترین آدمی ہے نے کہا کہ شہبازشریف نے میرے خلاف قرضوں کے معاف کرنے کے حوالے سے جھوٹاالزام لگایا مجھے نوٹس ملااورمیں نے اس کا جواب دیا۔اس کے بعد نہ تو وہ خود آئے اورنہ ہی ان کے وکیل پیش ہوئے بلکہ آپ کے وکیل نے کہا کہ شہبازشریف کو پابند کیا جائے کہ وہ میرے موکل کو قرض خور نہ کہیں ۔
جہانگیر ترین صاحب آپ نے بیواؤں اوریتیموں کا خون چوسا ہے ۔غریبوں کا مال لوٹ کر لندن میں محلات بنائے ہیں اور پھر بھی خود کو مسٹر کلین کہتے ہیں۔میں اس وقت تک آپ کو قرض خورکہتا رہوں گا جب تک آپ غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں کردیتے ۔نیازی صاحب آپ کے دائیں بائیں کون لوگ کھڑے ہیں۔قبضہ مافیا اورقرض معاف کرانے والے آپ کے ساتھ ہیں،اللہ سے ڈریں اورجھوٹے الزامات لگانے سے باز رہیں۔انہوں نے کہا کہ ہتک عزت کاقانون سنگ دل ہے،
اس کے فیصلے سالوں نہیں ہوپاتے۔لوگ فوت ہوجاتے ہیں لیکن ان کیسز کے فیصلے نہیں ہوتے۔اس قانون کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔خان صاحب اس قانون کو تبدیل کرانے کیلئے آگے بڑھیں تاکہ فیصلے ایک ماہ کے اندر ہوں اور دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہواورغریب آدمی کی بھی شنوائی ہو۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ زرداری صاحب نے اس غریب قوم کے 60ملین ڈالر لوٹے اورصدر کا استنا حاصل کر کے 6ارب روپے ہضم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
قوم آپ کو اس لوٹ مار پر بددعائیں دے رہی ہیں اورمظلوم کی دعا آسمانوں کوچیردیتی ہے ۔زرداری صاحب آپ نے بھی اللہ تعالی کی عدالت میں حاضر ہونا ہے اورقوم کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب دینا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جھوٹ،دروغ گوئی اوربہتان تراشی پر اے آر وائی چینل کو لیگل نوٹس بھیج دیاہے اوراعتزاز احسن میرے لئے قابل احترام ہیں لیکن ان کو اے آر وائی کے پروگرام میں بطور مہمان بلایاگیا تھا اس لئے انہیں بھی نوٹس بھجوایاگیا ہے ۔
وزیر اعلیٰ نے میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بے بنیاد الزامات لگانے پر ہتک عزت کے قانون میں ترامیم کی ضرورت ہے کیونکہ شریف آدمی پر الزامات لگ جاتے ہیں لیکن اس کی شنوائی نہ ہونا بہت بڑا ظلم ہے ۔ میں سمجھتا ہوں نیا قانون بننا چاہیے ۔ اے آروائی چینل کے نمائندے کی بات پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اے آروائی نے بے بنیاد الزامات لگائے گئے کہ کیپیٹل انجینئرنگ کمپنی کے پیچھے شہباز شریف ہے اور 17 ملین ڈالر چین بھجوائے گئے ہیں ۔
اے آروائی کو ان بے بنیاد الزامات کے ثبوت سامنے لانا ہوں گے ۔ میں اے آروائی کو ایک یا دو گھنٹے نہیں 48 گھنٹے دے رہا ہوں کہ وہ 21 کروڑ عوام کے سامنے ثبوت لے کر آئے تو بے شک میری گردن ذنی کردی جائے اور اگر اے آروائی چینل ثبوت نہ لا سکے تو پوری قوم ان کا کڑا محاسبہ کرے کیونکہ اے آروائی چینل نے بے بنیاد بہتان لگایا ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام کیلئے میں ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا ہوں اورآواز اٹھانا میرا حق ہے ۔
قبضہ گروپوں اور قرض معاف کرانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے ان اداروں کا کام ہے جنہیں اختیار دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے قرضوں کو واپس لینا ہو گا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزارت عظمی کے لئے میرا نام تجویز کیا جبکہ45 دن کے لئے شاہد خاقان عباسی کا نام تجویز کیا تھا۔ پارلیمانی پارٹی نے میرے نام کی تائید کی جو میرے لئے عزت کی بات ہے
تا ہم میں نے محمد نواز شریف سے درخواست کی کہ اس تعلیم ، صحت اور دیگر منصوبوں میں کئی تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں لہذا مجھے صوبے کی عوام کی خدمت کا موقع جاری رکھنے دیں کیونکہ میں صوبے کی 11 کروڑ عوام کو جوابدہ ہوں ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں مظلوم اور لاچار عوام کے ساتھ کھڑا ہوں اور ہمیشہ کھڑا رہوں گا ۔
انہوں نے کہا کہ اتفاق فاؤنڈری کو بھٹو کے دور میں نیشنلائزکیا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اسے بند کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود پونے چھ ارب روپے بنکوں کے قرضے بمعہ سود واپس کئے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگو ں نے یتیموں،بیواؤں کے پیسوں پر ڈاکہ ڈالا وہ سازشی ہیں ۔جن لوگوں نے غریب قوم کو اندھیروں میں دھکیلا ہے وہ سازشی ہیں۔ منصوبوں میں کرپشن کرنے والے سازشی ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں یتیموں، بیواؤں، بے آسرؤں اور غریب عوام کے لئے آواز اٹھاتا رہوں گا۔