اسلام آباد(نیوزڈیسک)اپنی کتاب میں شاہ محمود قریشی کے حوالے سے ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکام نامعلوم امریکی حکام کی پاکستان میں بڑھتی موجودگی پر مشتعل تھے اور وہ میری ناخوشگوار صورتحال کو امریکا کیلئے باعث ہزیمت بنانا چاہتے تھے۔اْن حکام میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے
جنہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے مجھے سفارتی استثنیٰ دینے کیلئے دباؤ ڈالنے پر 30 جنوری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ اپنے وکلاء کی معاونت کے ساتھ، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں سفارتخانے کیلئے نہیں بلکہ قونصل خانے کیلئے کام کرتا ہوں اور وہ نہیں چھوڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے 1961 اور 1963کا ویانا کنونشن پڑھا ہے اور جس طرح کی معافی امریکا میرے لئے مانگ رہا ہے وہ جائز نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اضافی شراکت داری کے قانون پر صدر بارک اوباما کی جانب سے دستخط کیے جانے سے تین دن قبل، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن پہنچے تاکہ پاک فوج کے تحفظات سے آگاہ کر سکیں۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری ہمیشہ سے ہی شاہ محمود قریشی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اطمینان محسوس کرتے تھے۔ وہ اکثر قریشی کو دوست کہتے اور انہوں نے قریشی کے بیٹے زین کو اپنے پاس سینیٹ آفس میں انٹرشپ پر مقرر کیا تھا۔
لیکن جب جان کیری مجھے لاہور جیل سے چھڑانے کیلئے معاہدہ کرانے کی خاطر 15 فروری 2011کو پاکستان پہنچے تو قریشی نے وہ رویہ اختیار کیا جو ایک دوست جیسا نہیں تھا۔مجھے سفارتی استثنیٰ دینے کیلئے حکومت کی بات ماننے کی بجائے انہوں نے مزنگ چونگی پر پیش آئے واقعے کے تین دن بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور دو ہفتوں بعد بھی وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اعلیٰ پاکستانی عہدیداروں کے ایک اجلاس میں، زرداری اور گیلانی نے قریشی کو منانے کی کوشش کی کہ وہ اپنا سخت موقف چھوڑ دیں لیکن قریشی نے اگلے ہی دن پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا کہ امریکا کے آگے نہ جھْکیں اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سر اْٹھا کے جیئیں۔