اسلام آباد (آن لائن) پاکستان ٹیلی حکام اتھارٹی ( پی ٹی اے ) میں 6 ارب 23 کروڑ روپے کا نیا کرپشن سکینڈل سامنے آگیا ہے وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے بھی اس بھاری بعد سکینڈل پر خاموشی اختیار کر لی ہے اور اب تک ذمہ داروں کا تعین نہیں کر سکی۔ آن لائن کو حاصل ہونے والی آڈٹ رپورٹ 2014 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ای سی سی کے فیصلے کے برعکس پی ٹی اے کے چیئرمین اور ممبر فنانس نے 5 ڈبلیو ایل ایل روائرلیس لوکل لوپ سیٹشن سوئرز کو 6 ارب 23 کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا جو براہ راست قومی خزانہ پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ ای سی سی نے فیصلہ کیا تھا کہ 450 اور 1900 فزیکولیٹی ڈبلیو ایل ایل لائسنس ہولڈرز کو چار سال کی چھوٹ دی تھی۔ چار سال کے بعد بھی پی ٹی اے کے کرپٹ حکام نے ڈبلیو ایل ایل والوں سے سپیکٹرم فیس معاف کر دی جس سے قومی خزانہ کو 6 ارب 23 کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی ٹی سی ایل اور ورلڈ کال کے علاوہ کسی بھی آپریٹر نے فیس ادا نہیں کی اور نہ پی ٹی اے نے اربوں روپے کی فیس کی حصول کی کوشش کی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے کی نااہلی کی وجہ سے آپریٹر نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیا اور رقم وصولی بارے پی ٹی اے حکام کو مجرم ٹھہرایا۔
مزید پڑھئے:پراسرار خاتوں کی آواز نے پانی میں ڈوبے بچے کی جان بچا لی
آڈٹ رپورٹ کے مطابق ڈی اے سی کے دوران پی ٹی اے نے جو جواب داخل کیا درانتہائی غیر اطمینان بخش تھا۔ آڈٹ حکام نے سفارش کی ہے کہ پی ٹی اے کے شعبہ فنانس کے افسران کے خلاف اربوں روپے کا قومی خزانہ کو نقصان پہنچانے پر تادیبی کارروائی کی جائے اور سپیکٹرم فیس کی مد میں 6 ارب 23 کروڑ روپے وائرلیس لوکل لوپ آپریٹر سے وصولی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ رپورٹ کے مطابق ڈی دی کام ڈیٹا کے ذمہ ایک ارب 32 کروڑ گریٹ بیئر کے ذمے 57 کروڑ ، پی ٹی سی ایل کے ذمے ایک ارب 90 کروڑ ، ٹیلی کارڈ کے ذمے ایک ارب 43 کروڑ اور ورلڈ کال کے ذمے ایک ارب 22 لاکھ ہیں۔