اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)برصغیر پاک و ہند میں بھی ایسے ڈاکوؤں کے متعلق کئی کہانیاں عام ہیں جو امراءکو لوٹ کر رقم غریبوں میں بانٹ دیتے تھے، ان کے مقامی علاقوں میں ان کا نام نہ صرف آج بھی زندہ ہے بلکہ ضرب المثل بن چکا ہے۔ امریکہ کا ایک ڈاکو اسی سلسلے میں مشہور ہوا تھا۔اسے بنک ڈکیتی کا موجد کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔اس کا نام چارلس آرتھر تھا، اس کا کام بھی امراءاور بینکوں کو لوٹنا اور رقم غریبوں کی فلاح کے لیے خرچ کرنا تھا۔
چارلس 3فروری1904ءکوامریکی ریاست جارجیا کے شہر بارٹو کاؤنٹی میں پیداہوا اور 22اکتوبر1934ایف بی آئی و دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ 1911ءمیں اس کے والدین اوکلاہوما منتقل ہو گئے اور چارلس نے وہیں پرورش پائی۔ نوجوانی میں اس کا زیادہ تر وقت کینساس، ارکنساس اور میسوری میں گزرا۔چارلس کو ”پریٹی بوائے“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انتہائی کم عمری میں ہی جرائم کی دنیا میں داخل ہوااور بہت جلد بہت بڑا گینگسٹر بن گیا۔ 1930ءکی دہائی میں چارلس وسطی امریکہ اور جنوب مغربی ریاستوں میں خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔چارلس کو پہلی بار 18سال کی عمر میں ڈاک خانے سے ساڑھے 3ڈالر کے سکے چرانے کے الزام میںگرفتار کیا گیا۔ 16ستمبر 1925ءکو اسے ریاست میسوری کے شہر سینٹ لوئس میں ایک ڈکیتی کے الزام میں دوبارہ گرفتار کیا گیالیکن وہ پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا۔ 1929ءتک چارلس متعدد سنگین وارداتوں میں مطلوب ہو چکا تھا۔ وہ کئی بار گرفتار ہوا اور رہا کر دیا گیا یا پھر فرار ہو گیا۔ اس دوران اس نے درجنوں بینک لوٹے۔ وہ بینک لوٹنے کے دوران گھروں کی تعمیر کے لئے دئیے گئے قرضوں کی دستاویزات پھاڑ دیا کرتا تھا تا کہ بینک مجبور لوگوں سے تقاضہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ 24نومبر 1930ءمیں اسے عمر قید کی سزا دی گئی لیکن وہ جیل سے بھاگ گیا۔ اس نے کئی سکیورٹی اہلکاروں کو بھی قتل کیا۔
1934ءمیں وہ اور اس کے گینگ کے دیگر ملزم ریاست اوکلاہوما کے شہر بولے میں فارمرز اینڈ مرچنٹس بینک لوٹنے کے بعد فرار ہو رہے تھے کہ ایف بی آئی و دیگر سکیوٹی اہلکاروں نے ان کا تعاقب کیا، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں چارلس جاں بحق ہو گیا۔
چارلس کے جرائم پیشہ ہونے کے باوجود مقامی لوگ اسے بہت نیک اور اچھا انسان تصور کرتے تھے کیونکہ وہ جب بھی بینک ڈکیتی یا دیگر وارداتیں کرتا تو حاصل ہونے والی رقم غریبوں میں بانٹ دیتا تھا،اس نے اسی رقم سے کئی لوگوں کے قرض اتارے اور انہیں امراءکی غلامی سے نجات دلائی۔ مقامی لوگ اسے ککسن ہلز کا رابن ہڈ کہتے تھے۔