ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شیطان کے وفد کی حضرت عثمانؓ سے ملاقات

datetime 26  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

“ایک دفعہ مدینہ منورہ میں قحط پڑگیا ۔ آسمان نے پانی برسانا چھوڑ دیاتھا اور زمین نے اناج اگانے سے انکار کردیاتھا ۔اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی لوگ دانے دانے کے لئے محتاج ہو گئے تھے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے ۔ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔اس دوران ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹا۔ اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے ۔کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچاتو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی ۔

بچے بوڑھے خوش ہوئے لیکن جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا ۔اس وفد نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کرنا چاہیں گے؟ ان کا ارادہ تھا کہ سارا مال خرید لیں اور قحط کی وجہ سے مجبور لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کرکے بہت سارا نفع کمائیںحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگاتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو دوگنا نفع دیں گے ۔ یعنی ایک دینار کا مال دو دینار میں خریدیں گے !حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنا نفع تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر انھوں نے نفع اور بڑھا دیا ۔ پھر بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔انھوں نے نفع اور بڑھا دیا لیکن اب بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہی کہا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے!یہ سن کر وہ تاجر حیران ہوئے ۔ انھوں نے پوچھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہم اہل مدینہ کو خوب جانتے ہیں ،یہاں کوئی تاجر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا ہے؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا — اللہ !جو نفع تم مجھے دے رہے ہو ،میرے رب نے مجھے اس سے بہت زیادہ نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ تمام مال اہل مدینہ اور ضرورتمندوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اس وقت قرآن کی یہ آیت تھی؛”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ،جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے،وہ فراخت دست بھی ہے اور علیم بھی“۔(البقرہ261)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تاجروں کا جو وفد آیا تھا وہ درحقیقت شیطان کا وفد تھا وہ آپ رضی اللہ عنہ کو آزمائش میں ڈالنے آیا تھا۔

وہ آپ کے سامنے اسی طرح آیا تھا جس طرح وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے آیا تھا جبکہ وہ اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کرنے جا رہے تھے۔ شیطان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے دنیوی فائدے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا تھا تاکہ عثمان رضی اللہ عنہ آخرت کے دائمی فائدہ سے محروم ہوجائیں ۔

لیکن چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایمان زندہ تھا اس لئے انھوں نے دنیوی فائدے پر آخرت کے فائدے کو ترجیح دی۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ ان کے سامنے شیطانی وفد ہے جو انھیں اخروی نفع سے ہمیشہ کے لئے محروم کرنا چاہتا ہے ۔ ایسی ہی سخاوت کی وجہ سے انہیں غنی کا لقب عطا ہوا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…