ایک آدمی سخت طوفان میں اپنے شیڈ میں چھپا بیٹھا تھا کہ دروازے پر اسے کسی چیز کے رگڑنے کی آواز آئی۔ وہ اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے دیکھا تو ایک موٹا تازہ سانپ سردی سے آدھا جما ہوا تھا اور بہت مشکل میں لگ رہا تھا۔ سانپ نے اس سے گزارش کی کہ ایک رات کے لیے اسے اپنے کیبن میں پناہ دیدے۔ آدمی بہت پریشان ہوا کیونکہ اسے سانپ سے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اس نے سانپ کو بولا کہ تم ادھر سے چلے جاؤ
۔تم ایک سانپ ہو اور جب تم ٹھیک ہو جاؤ گے تو مجھے ڈس لو گےکیونکہ سانپ کی یہی فطرت ہوتی ہے۔ سانپ بہت قابل رحم حالت میں تھا۔ اس نے اس آدمی سے بار بار درخواست کی کہ اگر میں اس ٹھنڈ اور طوفان میں باہر پڑا رہا تو میرا پورا جسم جم جائے گا اور میں مر جاؤں گا۔اس آدمی نے کافی سوچا اور اسے سانپ کی حالت پر ترس آگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سانپ کو اپنی دہلیز پار کرنے دیتا اس نے سانپ سے ایک عہد لیا۔ اس نے سانپ سے کہا کہ وعدہ کرے کہ وہ ٹھیک ہونے کے بعد بھی اس آدمی کو ڈسے گا نہیں؟ سانپ نے ہامی بھر لی اور وعدہ کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں انگیٹھی کے آگے بیٹھے تھے۔ تین گھنٹے بعد سانپ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اس آدمی کو سانپ پر اعتبار ہو گیا تھا۔ اس نے سانپ کو اپنے سینے پر بٹھا لیا اور دونوں انگیٹھی کے سامنے براجمان تھے۔ یکدم سانپ کو جانے کیا سوجھی، اس نے اس آدمی کو اس کی گردن پر ڈس لیا۔ وہ آدمی ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی موت بالکل یقینی تھی۔ اس نے مرتے ہوئے سانپ سے بولا کہ یہ کیا کیا تم نے؟ یہ کیسی گھٹیا حرکت تھی؟میں نے تمہیں پناہ دی اور تم نے اپنی خصلت دکھا دی۔ تمہیں ذرا خیال نہیں آیا کہ میں نے تمہاری اتنی مدد کی ورنہ تم مر جاتے؟تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ مجھے کبھی نہیں ڈسو گے تو پھر یہ کیا کر دیا؟
سانپ مزے سے ابھی بھی اس کے سینے پربیٹھا تھا۔ اس نے سکون سے جواب دیا کہ جب تم مجھے اندر لا رہے تھے تو تم نے بولا تھا نہ کہ میں سانپ ہوں اور میری فطرت میں ڈسنا لکھا ہے۔تمہیں اتنی عقل کیوں نہیں تھی کہ تم میری خصلت سے واقف ہوتے ہوئے بھی مجھے اندر لے آئے۔اس میں میری نہیں تمہاری غلطی ہے۔ یہ ایک سادی سی کہانی لگتی ہے لیکن اس کا حا صل سبق بہت موثر ہے۔ دنیا میں ہم بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔
کچھ کو اللہ نے ہمارا رشتے دار بنایا ہوتا ہے اور کچھ کو ہم ذہنی ہم آہنگی کی بنا پر دوست چنتے ہیں۔ ایسے میں چار سے پانچ سالوں میں ہم ان کے ساتھ وقت گزار کر ان کی فطرت سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کون منافق ہے؟کون دوغلا پن برتتا ہے؟ کون لالچی ہے؟ اگر ہم ان کی فطرت کے منفی پہلو پہچاننے کے باوجود ان کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا کر رکھیں تو وہ بالکل کسی زہریلے سانپ کی طرح آپ کو اجاڑ سکتے ہیں۔
جو لوگ صرف آپ کے ساتھ اچھے ہوں اور ان کا رویہ باقی لوگوں کے ساتھ حیوانی، حوص پر منحصر یا کرخت ہو، ان کو پہچاننے کے بعد ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اچھے بن جائیں گے ، سراسر بے وقوفی ہے۔انسان کو ہر انسان کو اچھے سے پرکھنا چاہیے اور پھر یہ فیصلہ کرنا چاہیےکہ کس کو زندگی میں اہم بنانا ہے اور کس کو وقت پر اپنی زندگی سے نکال دینا ہے۔ بہت سے دوست ایسے ہوتے ہیں
جو وقتاً فوقتاً ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں کہ آپ سمجھ جاتے ہو کہ وہ حسد کر رہے ہیں۔ انسان صرف تنہائی کے ڈر سے اگر بار بار اسی بل کا رخ کرے گا تو ایسے ایسے گھاؤ لے کر لوٹے گا جو زندگی بھر بھر نہیں سکتے۔ خود کو وقت پر ایسے زہریلے لوگوں اور رشتوں سے کنارہ کشی پر اکسائیں اور اپنی زندگی بہتر بنائیں۔جب کوئی بے ایمان شخص آپ کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے تو اس میں آپ کی اپنی غلطی سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ آپ نے اسے خود اپنا نقصان کرنے کا موقع فراہم کیا ہوتا ہے۔ دوستی سب سے رکھو، سب سے مل کر مسکراؤ پر یاد رکھو بھروسہ کسی پر مت کرو۔ اپنے آپ پر بھی نہیں۔ انسان بے جا بھروسہ کر کے دکھی ہوتا ہے۔