لندن((نیو ز ڈیسک ) ماہرین نے قدیم سمندروں میں عجیب و غریب اور اس وقت سب سے بڑے جانور کے فاسلز دریافت کیے ہیں۔ اب سے 48 کروڑ سال قبل سمندروں میں اسی جانور کا راج تھا۔ سات فٹ (2.1 میٹر) طویل یہ جانور آج کے کیکڑوں، بچھوو¿ں، مکڑیوں اور دیگر جانداروں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو ’اینتھروپوڈ ‘ کہلاتے ہیں۔ مراکش سے دریافت ہونے والے اس جانور کے آثار بتاتے ہیں کہ اپنی عظیم جسامت کے باوجود یہ کوئی شکاری نہیں تھا بلکہ سمندری پانیوں میں خردبینی جاندار ’پلانکٹن‘ کھایا کرتا تھا۔اس جانور کو ایگرکیسس بینمولے کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے قبیلے کے بقیہ تمام جانور پانی کے اندر اپنے سر پر موجود ابھار اور آکٹوپس جیسے بازوو¿ں سے شکار پکڑا کرتے تھے لیکن اس جانور نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور انہی بازو¿ں سے وہ پلانکٹن پکڑ کر کھایا کرتا تھا۔ اس کی بہت بڑی جسامت اور عجیب شکل سے گمان ہوتا ہے کہ یہ بہت خوفناک شکاری ہوگا لیکن یہ سمندروں کا سب سے بڑا لیکن پرامن جاندار گزرا ہے۔اس کا بہت تفصیلی فاسل ملا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس کا سر تارپیڈو جیسا تھا اور اس کا پورا جسم گیارہ حصوں پر مشتمل تھا۔ بدن کے دائیں اور بائیں پر جیسے ابھار تھے جو اسے تیرنے میں مدد دیتے تھے۔ اس کے منہ پر فلٹر نما ابھار تھے جس سے وہ چھوٹے سمندری جانوروں کواپنے اندر جذب کیا کرتا تھا۔ رائے کے مطابق یہ جاندار اب سے قریباً 53 کروڑ سال قبل ظاہر ہونا شروع ہوئے تھے اور سمندر میں پائے جانے بہت بڑے سمندری بچھو بھی انہی سے تعلق رکھتے تھے۔ییل یونیورسٹی امریکہ کے پیٹر وان رائے کی یہ تحقیق گیارہ مارچ کو بین الاقوامی ہفت روزہ ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔