ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاک چین اقتصادی راہداری،خیبرپختونخوا کیلئے زبردست اعلانات،ایک ساتھ بڑی خوشخبریاں سنادی گئیں

datetime 14  فروری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور(آئی این پی )وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ مغربی روٹ سی پیک کا حصہ ہے جبکہ پورے خطے کو مربوط کرنے کے لئے دیر پا اور سدابہار روٹ کے طور پر گلگت، چترال، دیر تا چکدرہ روڈ بھی سی پیک کا حصہ بن چکا ہے۔صنعتکاری اور انفرسٹرکچر میں آنے والی سرمایہ کاری لوگوں کی سوچ سے بھی زیادہ ہے۔گریٹر پشاور ماس ٹرانزٹ چھ اضلاع کو لنک کرے گا۔ سی پیک کے تحت 1700میگاواٹ

بجلی مقامی صنعتکاری کے لئے ترغیبی بنیاد پر فراہم ہو گی۔ رشکئی انڈسٹریل سٹی 40ہزار کنال اراضی پر مشتمل ہو گی۔ مارچ کے آخر میں بیجنگ میں روڈ شو کرنے جا رہے ہیں۔ صوبے کی قدرتی برتری کو مارکیٹ کرنے کے لئے ورکنگ گروپس کام کر رہے ہیں۔ چائنا سے ٹرکنگ اور ٹریکٹر کی صنعتوں سمیت لیبر انٹنسیو کی صنعتوں کی ری لو کیشن ہو گی۔ وزیر اعظم صوبے کے سیاسی قائدین کا جرگہ بلا کر انہیں مغربی روٹ پر اعتماد میں لیں۔ فاٹا کو صوبے کا حصہ دیکھ رہے ہیں۔صوبائی حقوق کے لئے زمینی حقائق پر مبنی عقلی دلائل کا راستہ چنا اور کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔پشاور اور رشکئی میں سمارٹ سٹی کے قیام کے لئے ایف ڈبلیو او سے معاہدے ہونے والے ہیں۔ ماضی میں کرپشن اور بدعنوانی صوبے کا برانڈ نام بن چکا تھا۔ ہم نے لوٹ کھسوٹ اور اقرباء پروری اور اختیارات کی حوصلہ شکنی کی اور ایک شفاف حکمرانی کی داغ بیل ڈالی۔ جو دوسروں کے لئے مثال ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور پریس کلب کی کابینہ اور سینئر صحافیوں سے گذشتہ رات وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں بات چیت کرتے ہوئے کیا۔وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات مشتاق غنی اور سیکرٹری اطلاعات ارشد مجید بھی اس موقع پر موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ مشترکہ تعاون کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں خیبر پختونخوا کے مختلف منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے کے لئے اصولی طور پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ان منصوبوں میں گریٹر پشاور ماس ٹرانزٹ سسٹم بھی شامل ہے۔ جس کے تحت تقریباً 123کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کے ذریعے پشاور، نوشہرہ، مردان اور چارسدہ جبکہ 103کلومیٹر ٹریک کے ذریعے صوابی کو باہم منسلک کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ 41فیصد آبادی کو کور کرے گا جو ٹرانسپورٹ کا ایک بہترین ، محفوظ اور سستا متبادل ذریعہ بھی ثابت ہو گا۔ گلگت، شندور، چترال تا چکدرہ روڈ بھی سی پیک میں شامل ہے۔ اس منصوبے کا تخمینہ لاگت 280ارب روپے ہے جو 586کلومیٹر طویل ہے۔ اس روڈ کے تین سیکشن ہیں۔ گلگت تا شندور سیکشن 224کلومیٹر طویل ہے جو مکمل طور پر گلگت بلتستان کے علاقے میں آتا ہے۔ شندور تا چترال سیکشن 146کلومیٹر طویل ہے جو خیبر پختونخوا میں آتا ہے جس کا تخمینہ لاگت 60ارب روپے ہے۔ چترال تا چکدرہ سیکشن 216کلومیٹر طویل ہے جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت آتا ہے۔ جے ڈبلیو جی کے سابقہ جائزہ اجلاس میں بتایا گیا کہ جنوبی کوریا کی مالی معاونت سے اس سیکشن کی بحالی و توسیع پائپ لائن میں ہے۔ گلگت شندور ، چترال تا چکدرہ روڈ سی پیک کے کوریڈور گلگت تا برھان پر لینڈسلایئڈنگ یا کسی بھی دوسری پرابلم کی صورت میں ٹریفک کے لئے بہترین متبادل روٹ ہو گا۔ یہ مستقبل میں واخان کی پٹی کے ذریعے وسطی ایشیاء اور افغانستان تک سی پیک کو مختصر ترین روٹ فراہم کرے گا

۔ 1063ایکڑ رقبے پر مشتمل حطار انڈسٹریل سٹیٹ کے فیز سیون کی توسیع و ترقی پر کام جاری ہے، نئے فیز کے لئے 424ایکڑ اراضی کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔ جبکہ مزید 1000ایکڑ اراضی مختص کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے کا مجموعی تخمینہ لاگت تقریباً 7120ملین روپے ہے۔1000ایکڑ رقبے پر مشتمل رشکئی انڈسٹریل پارک پر بھی کام جاری ہے۔ جس کا تخمینہ لاگت تقریباً7020ملین روپے ہے۔صوبائی حکومت نے سی پیک کے لئے متبادل روٹس بھی تجویز کئے ہیں۔جن میں 135کلومیٹر طویل بشام ، خوازہ خیلہ، مینگورہ۔چکدرہ روڈ اور276کلومیٹر طویل بشام ، الپوری، بونیر ، صوابی ، مردان روڈ شامل ہیں۔اسی طرح ایک ریلوے ٹریک بھی تجویز کیا گیا ہے۔جو گلگت کو شانگلہ کے ساتھ جبکہ شندور کے ذریعے درگئی کو لنک کرے گا۔صوبائی حکومت نے 2157میگا واٹ کے حامل پن بجلی کے 10منصوبے ، تین تھرمل پراجیکٹس اور سپیشل ٹرانسمیشن لائن بھی تجویز کی ہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ سی پیک کے تناظر میں متعدد منصوبے پلان کر چکے ہیں۔ کرک آئل ریفائنری اور ہزارہ میں سمینٹ فیکٹری قائم کر رہے ہیں۔ہم صوبے میں 7 سے 8 سمینٹ فیکٹریاں لگانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس مقصد کیلئے دس سے بارہ سائٹس زیر غور ہیں۔ یہ تقریباً 2 بلین ڈالر کے پراجیکٹس ہیں۔ آئندہ جون میں کچھ منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنائیں گے اور باقی خود مارکیٹ کریں گے ۔ ہم نے ترقی کے راستے تلاش کرلئے ہیں۔ ہم نے کرپشن نہیں کی اور نہ اداروں میں مداخلت کی ہے۔ ہم نے لوٹ کھسوٹ ، کرپشن اور اداروں میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ کرکے اداروں کو فعال بنایا ہے۔ اداروں کو اختیارات دے کر ڈیلیور کرنے کے قابل بنا دیا ہے ۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبے کے غریب عوام کیلئے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا ہے۔اس سہولت کا صحافیوں کیلئے بھی اعلان کر دیا گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کیلئے بھی پلان کر رہے ہیں۔ ان کی حکومت نے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور متعلقہ عملے کی کمی پوری کرنے کیلئے ساڑھے 9 ہزار سے زائد بھرتیاں کیں۔ پورے صوبے میں ڈاکٹر پورے کئے اب تبادلوں پر پابندی ہے۔ صوبے کے ہسپتالوں کو خودمختاری دینے کیلئے قانون پاس کیا۔ اب ہسپتالوں کی شکل بدل چکی ہے۔ ہم نے پچھلے 70 سال کا گند صاف کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ حکمرانوں نے ہمیشہ پولیس کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔ مفاد پرست حکمران اپنا اختیار کسی کو نہیں دیتے۔ ہم نے پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرکے ایک آزاد اور با اختیار ادارہ بنایا۔ چیک اینڈ بیلنس کا ایک سسٹم وضع کیا۔ اب پولیس ڈیلیور کرنے لگی ہے۔ شعبہ تعلیم میں اصلاحات کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں اساتذہ پر بھی سیاست ہوتی رہی ۔ سکولوں میں نہ اُستاد تھا اور نہ دیگر بنیادی سہولیات تھیں۔ انکی حکومت صوبے بھر کے سکولوں میں اساتذہ پورے کئے ۔ ۔ تقریباً40 ہزار بھرتیاں عمل میں لائی گئیں ۔ صوبے کے 28000 پرائمری سکولوں میں سے 15 ہزارسکولوں میں وہ سہولیات دے چکے ہیں جوپہلے موجود نہ تھیں۔ 24 ارب روپے کی لاگت سے missing facilities پوری کر رہے ہیں جن میں سے 12 ارب ڈی ایف آئی ڈی نے دیئے ہیں۔ کالجوں کو سہولیات دینے کیلئے 17 ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور ان کو خود مختاری دینے کیلئے بھی پرعزم ہیں۔

صوبائی حکومت نے نصاب تعلیم کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے اور اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے بھی عملی اقدامات کئے ہیں۔ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن جبکہ چھٹی سے 12 ویں کلاسوں تک قرآن بمعہ ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔امیر اور غریب کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ پرائمری کی سطح پر انگلش میڈیم شروع کر دیا گیا ہے تاکہ غریب کا بچہ بھی آگے جا کر امیر کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے ۔

پرویز خٹک نے کہا کہ یہ واحد صوبائی حکومت ہے جس نے حقیقی معنوں میں اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کئے ہیں۔ مقامی حکومتوں کو 50 ارب روپے دے چکے ہیں۔ہماری حکومت کے اختتام تک یہ رقم 80 ارب روپے تک پہنچ جائے گی ۔ صوبائی محکموں میں بورڈز اور اتھارٹیاں بنا رہے ہیں۔ جن میں پرائیوٹ سیکٹر کو بھر پور نمائندگی دی گئی ہے۔ ہم نے اصلاحات کے ذریعے بیوروکریسی کی اجارہ داری ختم کرکے اداروں کو مضبوط بنایا ہے تاکہ عوام کے وسائل حل ہوں ۔ حقدار کو حق ملے اور کسی سے نہ انصافی نہ ہو۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…