بیجنگ (آئی این پی)چین شعراء نے اکثر کوئل کی آمد کو وطن واپسی کی کال کی علامت کے طورپر استعمال کیا ہے لیکن بہت کم کو علم ہے کہ یہ پرندہ کہاں سے آیا ہے ، فنی طورپر اب اس کا جواب موجودہے ،مصنوعی سیارے کے ذریعے ٹریکنگ سے پتہ چلا ہے کہ عام کوئل سرمائی زمینوں کے درمیان 12ہزار کلومیٹر تک
بیجنگ میں اپنے گرمائی مقام اور مشرقی افریقہ تک سفر کر سکتی ہے ، چینی اور برطانوی ماہرین الطیور اور پرندوں کے شائقین نے مئی میں بیجنگ کے تین دلدلی پارکوں میں 16کوئلیں پکڑی ہیں اور پانچ پرندوں کے ساتھ سیٹلائٹ ٹیگ لگائے ہیں ، ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ نر پرندے ’’سکائی بم بولٹ ‘‘ نے بحیرہ عرب سے پار وسطی بھارت سے صومالیہ تک نومبر کے اوائل میں 3700کلومیٹر نان سٹاپ فلائیٹ کی ہے جبکہ دو شمالی
بھارت کی طرف پرواز کر گئے اور دو باقی لاپتہ ہو گئے ، اسے کسی کوئل کے بارے میں جانا جانے والا طویل ترین نقل مکانی روٹ خیال کیا جاتا ہے اور یہ یورپی کوئل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ، بھارت سے روانہ ہونے سے قبل اس نے قریباً پہلے ہی اتنا سفر کیا تھا جو برطانوی کوئل اپنے پورے نقل مکانی دوران کرتی ہے ۔
یہ بات برطانوی ٹرسٹ برائے طیور کے محقق اور رکن کرس ہیوسن نے بتائی ہے ۔یہ دیکھنا کہ اس نے دنیا کو کتنا چھوٹا بنا دیا ہے ، انتہائی زبردست اور عاجزانہ تجربہ ہے ، بیجنگ کی کوئلیں اکتوبر میں جنوب کی طرف پرواز کر جاتی ہیں اور اپریل میں واپس آتی ہیں ، اپنی نمایاں آواز کی بنا پر پہچانے جانیوالے یہ پرندے ا نتہائی دیر آشنا ہیں ، دس سال تک پرندوں کا مشاہدہ کرنے والے شائی یانگ کا کہنا ہے کہ کوئلیں عموماً گنجان درختوں
کے جھنڈ میں ٹھہرتے ہیں جب تک وہ پرواز نہ کریں ان کو بہت کم دیکھا جاتا ہے ، اس لئے ان کا مطالعہ کرنا انتہائی مشکل ہے ،ان کی آبادی افزائش کے موسموں اور ان کو جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کا ابھی تک کوئی علم نہیں ہے ، حالیہ برسوں میں پتہ چلانے والے آلات ان پرندوں کے لے کر جانے کیلئے کافی چھوٹے بن گئے ہیں ، ماضی میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی بڑے جانوروں کا کھوج لگانے کی واحد ترکیب تھی جن میں سرخ
کلغی والی کونجیں اور کالی اور پیلی چونچ والے ہنس شامل ہیں ، بیجنگ این جی او کے بانی اور پراجیکٹ آرگنائزر ٹیری ٹاؤن شینڈ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں جب ٹیکنالوجی پیشرفت کرے گی ، ہمیں امید ہے کہ ہم چھوٹے مختلف پرندوں کا بھی کھوج لگا سکیں گے۔