نوشیرواں اپنی بادشاہت کے ابتدائی زمانے میں جب عدالت میں مشہور نہ تھا، نہایت عیش و عشرت میں مشغول تھا اور رعیت کے کاموں میں بالکل لاپرواہ۔ اس کے پڑوس میں ایک امیر تھا جو نہایت سخی، جوانمرد اور مہمان نواز تھا۔
ایک دن نوشیرواں سوداگروں کے بھیس میں بطور امتحان اس کے پاس گیا۔وہ شخص حسب عادت نہایت تکلف واحترام کے ساتھ اندر لایا اور بہت خاطر مدارات کی۔ نوشیرواں نے دیکھا کہ اس کے باغیچہ میں نہایت عمدہ پکے ہوئے انگور ہیں۔ اثنائے گفتگو نوشیرواں نے کہا اگر آپ کی فرمائش ہو تو میں کوئی تحفہ اپنے وطن سے بھیجوں، کیونکہ میں سوداگر ہوں۔ اس شخص نے کہا اگر ممکن ہو تو انگوربھیجئے گا۔ نوشیروان نے کہا کہ انگور تو تمہارے ہاں بکثرت اور بہترین قسم کے موجود ہیں۔ اس نے کہا ہمارا بادشاہ ظالم ہے اور رعایا کی پرواہ نہیں کرتا۔ ابھی کسی شخص کو مقرر نہیں کیا ہے کہ لوگوں سے محصول شاہی کےانگور وصول کرے۔ حالانکہ انگور پک گئے ہیں اور سب لوگ کھا رہے ہیں۔ مگر میں اس وجہ سے نہیں کھاتا کہ امانت میں خیانت ہے جب تک کہ بادشاہ اپنا حق دسواں نہ لے لے۔ نوشیرواں رو دیا اور کہا کہ وہ بادشاہ ظالم میں ہی ہوں۔ تیری اس دیانت نے مجھے خواب غفلت سے بیدار کر دیا۔ پس اس رو زسے اس قدر طریقہ عدل اختیار کیا کہ اپنا سب عیش و آرام حرام کر دیا اور اس شخص کو معزز و معظم بنایا۔