ہفتہ‬‮ ، 30 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

الطاف حسین غدار نہیں، ایم کیو ایم کا اعلان

datetime 15  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(آئی این پی)متحدہ قومی موومنٹ لندن عبوری رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے کہا ہے کہ22اگست کے واقعہ پر وہ قوم سے معافی مانگ چکے ہیں ،ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کوئی چیز نہیں ایم کیو ایم صرف ایک ہے جس کے قائد الطاف حسین ہیں ،ایم کیوایم کے تمام کارکنان بانی تحریک کی قیادت میں متحد ہیں، الطاف حسین غدار نہیں، بلکہ محب وطن پاکستانی ہیں ،اسٹیٹس کو کی قوتوں نے الطاف حسین کو عوام سے الگ کرنے کے لیے حقیقی ،پی ایس پی اور متحدہ پاکستان کے ذریعہ مائنس ون کی کوشش کی جسے عوام نے مسترد کردیا ہے ،وہ ہفتہ کوپریس کلب میں عبوری رابطہ کمیٹی کے ارکان کنور خالد یونس ،ساتھی اسحاق ایڈوکیٹ ،مومن خان مومن ،امجد اللہ خان ،اشرف نور ،اکرم راجپوت ،اسماعیل ستارہ اور ادریس علوی ایڈوکیٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے،پریس کانفرنس کے موقع پر الطاف حسین کے حق میں نعرے بازی کی گئی اور اختتام پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے ،پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے کہا کہ ایم کیوایم ملک کی تیسری بڑی جماعت ہے ، سازشی ہتھکنڈوں کے باوجود پارٹی آگے بڑھتی گئی ہے ،جس میں مائنس ون ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے،کیونکہ مائنس ون کا مطلب مائنس عوام ہے، ایم کیو ایم کے

خلاف جاری آپریشن بند کیا جائے،نائن زیرو اور متحدہ کے دفاتر کی سیل ختم اور کارکنوں کو رہا کیا جائے ،فاروق ستار اور ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے پارٹی کو ہائی جیک کرلیا ہے ، فاروق ستار کسی اور نام سے پارٹی بنائیں، ایم کیو ایم کی رجسٹریشن کے معاملے پر عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا، یہ بات درست نہیں کہ تمام پارلیمنٹرینز ، ارکان سندھ اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے فاروق ستار اینڈ کمپنی کے ساتھ ہیں ،اکثریت پارٹی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے ،انہوں نے اپنے استعفیٰ جمع کرادیئے ہیں جو وقت آنے پر سامنے لائے جائیں گے ،ایم کیو ایم کے تنظیمی سیٹ اپ اور دفترکے قیام کا اعلان جلد کردیا جائے گا،پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی تیسری بڑی جماعت ہے ،میہ وہ واحد جماعت ہے جس نے ایک طلبہ تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بطن سے جنم لیا ،اس تحریک کو کراچی یونیورسٹی میں شب و روز محنت کے بعد الطاف حسین نے قائم کیا بعد میں یہ جماعت عوامی سطح پر پہلے مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ بنی ۔متحدہ قائد نے اپنے رشتہ داروں کی بجائے تحریکی کارکنوں کو ایوانوں میں بھیجا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب اور محنت کش طبقے کو انتخابات کے ذریعہ منتخب ایوانوں میں نمائندگی دلائی ۔یہ دعوت ملک بھر میں عام ہوئی ۔ایم کیو ایم ہی واحد جماعت ہے جو پاکستان میں متوسط اور غریب طبقے کی حکمرانی کا انقلاب لاسکتی ہے ۔اسٹیٹس کو کی محافظ قوتیں اس تحریک کو ملک میں جاری اسٹیٹس کو کے لیے سب بڑا خطرہ سمجھتی ہیں اور اس ختم کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی جاری ہیں ۔ان قوتوں نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے پہلے الطاف حسین کو خریدنے کی کوشش کی جس میں ناکامی کے بعد 1991میں اس تحریک کے کچھ لوگوں کے ضمیر خریدے گئے اور ان ضمیر فروشوں پر مشتمل حقیقی گروپ بنایا گیا ۔19جون 1992کو حقیقی کو ریاستی

سرپرستی میں سرکاری ٹرکوں میں بٹھاکر کراچی لایا گیا اور مہاجروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا کھلا لائسنس دیا گیا ۔تمام تر مظالم کے باوجود عوام نے حقیقی ٹولے کو مسترد کردیا ۔1992میں حقیقی کی ناکامی کے بعد ایم کیو ایم کو کمزور اور کچلنے کی سازشیں جاری رہیں ۔اسٹیٹس کو کی ان قوتوں نے ایک مرتبہ پھر 1992کا کھیل کھیلتے ہوئے قوم کے کچھ بے ضمیر اور کرپٹ لوگوں کو خرید کر انہیں کراچی لایا گیا اور مال و دولت اور کروڑوں کی دولت اور دیگر مراعات فراہم کرکے پاک سرزمین پارٹی بنائی گئی اور کوشش کی گئی کہ ایم کیو ایم کے تمام لوگوں کو توڑ کر اس میں شامل کرلیا جائے ۔اس مقصد کے لیے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ذمہ داران اور کارکنوں کو دھمکیاں دے کر اس گروپ میں شامل کرانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم عوام نے اس ٹولے کو بھی مسترد کردیا ۔انہوں نے کہا کہ 2013میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ۔22اگست سے قبل کراچی میں کارکنوں کی گرفتاریوں میں شدت آگئی ۔ان گرفتاریوں ،چھاپوں اور ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ کارکنان کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال جاری تھی کہ بانی متحدہ الطاف حسین نے ان مظالم اور بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے کارکنوں کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ شدت جذبات سے مغلوب ہو کر جملے کہے اس پر وہ دو مرتبہ قوم سے معافی مانگ چکے ہیں ۔اس واقعہ کے بعد ایم کیو ایم پر ریاستی مظالم کے پہاڑ توڑدیئے گئے ۔ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو اور دیگر دفاتر کو سیل کردیا گیا اور سیکڑوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا ۔الطاف حسین کے خلاف مقدمات قائم کردیئے گئے اور ان کی ذات کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 23اگست کو ڈاکٹر فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی تو قائد تحریک نے

تحریک کے وسیع تر مفاد میں تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کے حوالے کردیئے تاہم پارٹی کے چند سینئر لوگوں نے محض خود کو بچانے کے لیے تحریک کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ایم کیو ایم کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو ناقابل یقین اور ناقابل فراموش ہے ۔ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھ موجود سینئر لوگوں نے نہ صرف اپنے قائد سے لاتعلقی اختیار کی ،ان کی مذمت کی ،ان کی بنائی ہوئی تحریک سے ہی ان کو الگ کردیا ۔تحریک کے آئین سے قائد تحریک الطاف حسین کا نام اور صوابدیدی اختیارات غیر آئینی اور آمرانہ طریقے سے چھین لیے ۔تحریک کے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے قائد کو ہی تحریک سے نکال دیا گیا اور کنوینر اور رابطہ کمیٹی کے ارکان کی رکنیت ختم کردی گئی ۔پارلیمنٹ ،سندھ اسمبلی اور سٹی کونسل میں الطاف حسین کے خلاف قراردادیں پیش کرکے ان کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ۔یہ ایسے فیصلے اور اقدامات تھے جو تحریک اور مہاجر قوم کے مفاد میں نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم مخالف قوتیں ہمیشہ سے مائنس الطاف کے فارمولے پر کام کرتی رہی ہیں ۔1992میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو پارٹی کے چیئرمین عظیم احمد طارق اور پوری مرکزی کابینہ کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا کر ایک بنگلے میں بٹھایا گیا اور قائد تحریک سے الگ کرکے ایک گروپ بنایا گیا ۔اسی وقت ڈاکٹر فاروق ستار ،ڈاکٹرعشرت العباد اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی وغیرہ تھے جنہوں نے قائد تحریک سے کہا کہ تحریک کو بچانے کے لیے قیادت الگ ہوجائیں تو آپریشن کے ساتھ مہاجر عوام پر مظالم کا سلسلہ بند ہوجائے گا ۔الطاف حسین نے تحریک ،کارکنان اور عوام کو بچانے کے لیے سیاست دستبرداری کی لیکن مظالم بند نہیں ہوئے ۔بعد میں یہ تمام لوگ الطاف حسین سے معافی مانگ کر دوبارہ تحریک میں آگئے ۔قائد متحدہ نے انہیں معاف کردیا حتی کہ عامر خان جو کہ حقیقی کے مرکزی فرد تھے الطاف حسین نے ان کو بھی معاف کردیا ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ،ڈاکٹر خالد مقبول اور دیگر لوگ اب بھی وہی دلائل دے رہے ہیں جو اس وقت دے رہے تھے ۔ایک بار پھر الطاف حسین کو نکال کر مائنس ون کے فارمولے پر عمل کیا گیا ۔اس ٹولے نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تحریک کو بچانے

کا نام استعمال کیا اور آسان راستے کا انتخاب کرتے ہوئے قائد سے لاتعلقی اختیار کرلی اور اپنے اندر کا خوف کارکنوں میں پھیلا دیا ۔انہوں نے کہا کہ فاروق ستار اینڈ کمپنی نے شہید ،لاپتہ اور اسیر کارکنوں کا معاملہ پس پشت میں ڈال دیا ہے اور گرفتاریوں پر احتجاج تو کیا مذمتی بیان دینے کا سلسلہ بھی بند کردیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آزمائش کے اس وقت میں اس ٹولے نے قائد کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اپنے قائد کو ہی قربان کردیا ۔جن لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچایا گیا ان لوگوں نے ہی اپنے قائد کے ساتھ بے وفائی اور احسان فراموشی کی بدترین مثال قائم کی ۔اس ساری صورت حال کی وجہ سے قوم میں شدید مایوسی پھیل رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس تحریک میں ہزاروں شہیدوں کا خون شامل ہے ۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینر ندیم نصرت اور سینئر ساتھیوں نے طویل مشاورت اور قائد تحریک کی توثیق سے 12رکنی عبوری رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا ہے ۔آج کی پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم نے اپنا سیاسی سفر دوبارہ سے شروع کردیا ہے ۔ہم تحریک کے کارکنوں اور قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ شہداء کے خون اور کارکنان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔کوئی بھی سازش اور ہتھکنڈہ الطاف حسین کو الگ نہیں کرسکتا ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان یا لندن کوئی چیز نہیں صرف ایم کیو ایم ہے جس کے قائد الطاف حسین ہے ۔ایم کیو ایم ایک تھی ،ایک ہے اور ایک ہی رہے گی ۔اسے ختم کرنے اور ٹکڑے کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی ۔ایم کیو ایم کے تمام سچے اور باوفا کارکن الطاف حسین کی قیادت میں متحد ہیں ۔یہ قافلہ مزید بڑھتا رہے گا ۔انہوں نے الطاف حسین کی جانب سے اے پی ایم ایس او ،شعبہ خواتین ،ایلڈرز ونگ ،لیبر ڈویژن سمیت تمام شعبہ جات ،یونٹوں ،سیکٹروں ،زونوں ،پاکستان بھر اور اوورسیز کے وفادار ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آج تمام تر نامساعد حالات اور مصائب اور مشکلات کے باوجود ایم کیو ایم کے کارکنان الطاف حسین کے ساتھ ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عوام نے مائنس ون فارمولے کو مسترد کردیا ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بند کیا جائے ۔نائن زیرو سمیت تمام دفاتر کی سیل ختم کی جائے ۔

انہیں دوبارہ کھولنے کی اجازت دی جائے ۔ایم کیو ایم کو پرامن سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی جائے جو اس کا آئینی اور قانونی حق ہے ۔ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ذمہ داروں کی گرفتاریوں اور ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں کو رہا کیا جائے ۔لاپتہ کارکنوں کو بازیاب کرایا جائے ۔الطاف حسین کی تقریر ،تحریر ،تصویر اور بیانات کی نشر و اشاعت پر عائد پابندی ختم کی جائے اور ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل بند کیا جائے ۔انہوں نے وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی اپیل کی کہ وہ اس کڑے وقت میں ہمارا ساتھ دیں ۔وکلاء انسانیت کے نام پر اور رضاکارانہ طور پر اسیر اور لاپتہ کارکنوں کی قانونی معاونت کے لیے اپنی خدمات پیش کریں ۔حق پرست صحافی ،دانشور اور قلمکار اپنے قلم کے ذریعہ اصل حقائق سامنے لائیں ۔ایک سوال کے جواب میں حسن ظفر نے کہا کہ الطاف حسین 22اگست کے بیان پر دو مرتبہ قوم سے معافی مانگ چکے ہیں ۔الطاف حسین نے خود کہا ہے کہ پاکستان ان کا مادر وطن ہے ۔انہوں نے حالیہ ایک خطاب میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ تمام پارلیمنٹرینز ، ارکان سندھ اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے فاروق ستار اینڈ کمپنی کے ساتھ ہیں ۔اکثریت پارٹی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے ۔انہوں نے اپنے استعفیٰ جمع کرادیئے ہیں جو وقت آنے پر سامنے لائے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ الطاف حسین غدار نہیں ہیں ۔ان پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے ۔عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوا ہے ۔ان کا دفاع کرنا ان کے ساتھیوں کا حق ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹرفاروق ستار کے نام پر رجسٹرڈ ہے، لیکن اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب الطاف حسین 1992میں جلاوطن ہوئے تو کچھ مسائل کی وجہ سے یہ جماعت ڈاکٹر فاروق ستار کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ لندن یا پاکستان نہیں متحدہ صرف متحدہ قومی موومنٹ ہے اور اس جماعت کی رجسٹریشن کے حوالے سے ہم اپنا دفاع عدالتوں میں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ تمام منتخب نمائندے ازخود منتخب نہیں ہوئے ۔ان کو ٹکٹ الطاف حسین نے جاری کیے اور ووٹ بھی انہوں نے الطاف حسین کے نام پر حاصل کیے ۔ان نمائندوں کی ذاتی

کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اب وہ تحریک کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے پارٹی قیادت کے فیصلے پر عمل کریں اور اپنے نشستوں سے استعفیٰ دے دیں ۔انہوں نے کہا کہ ضمیر فروش ٹولے کی معافی کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 22اگست کے بعد الطاف حسین کو مائنس کرنے کا جو تاثر قائم کیا گیا تھا وہ عوام نے مسترد کردیا ہے اور کوئی مائنس ون فارمولا عوام کو قابل قبول نہیں ہے ۔مائنس ون فارمولے کا مطلب مائنس عوام ہے ۔انہوں نے کہا کہ ابھی تو ہمارا کوئی دفتر نہیں ہے ۔کوئٹہ وال کا ڈھابہ ہمارا دفتر ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ تنظیمی سرگرمیوں اور سیٹ اپ کا اعلان جلد کردیا جائے گا ۔قبل ازیں ایم کیوایم لندن کی کراچی پریس کلب میں اہم پریس کانفرنس سے قبل رینجرز نے پریس کلب کا انتظام سنبھال لیا، اس موقع پر صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔کراچی پریس کلب کے مرکزی گیٹ پر رینجرزکے جوان تعینات کردئے گئے ، پریس کلب کے اطراف رینجرز کی بھاری نفری موجود رہی۔پریس کلب کے اندر ایم کیوایم لندن کے رہنما پریس کانفرنس کرنے پہنچ چکے تھے ،اس پریس کانفرنس کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو سخت دشواری کاسامنا کرناپڑا، اس صورتحال کے دوران صحافیوں کی جانب سے نعرے بازی بھی کی گئی جس کو پریس کلب انتظامیہ نے روکوادیا۔رینجرز کا موقف تھا کہ صحافیوں کو کارڈ دکھاکر پریس کلب میں جانے کی اجازت ہے جنہیں بعد ازاں کارڈ دکھا کر کلب میں جانے کی اجازت دے دی گئی ۔پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعدادپریس کلب کے باہر جمع ہوگئی جس میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل تھی ،انہوں نے الطاف حسین کے حق میں نعرے بازی کی ،اس موقع پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موجود تھی ،تاہم پریس کانفرنس کے اختتام پر صورت حال پرامن رہی اور کسی بھی رہنما یا کارکن کوگرفتار نہیں کیا گیا ،بعد ازاں تمام کارکنان پرامن طور پر منتشرہوگئے۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…