اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)جامع الترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (ترجمہ) حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ خاتون جنت پاک سیدہ فاطمہ کے فرزندان ذی حشم علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے لخت جگر شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا گیا ہے اور یہ فرمانا ہے تاجدار کائنات نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ( ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟ حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کرسکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑگئے ہیں، حقیقتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں، حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ وہ منظر کیا دلکش منظر ہوگا۔ جب جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں، حضرت عمر نے جب یہ روح پرور منظر دیکھا تو شہزادوں کو مبارکباد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے ہیں، شہزادو! تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے۔
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں جنہیں آقائے دوجہاں کے مقدس کندھوں پر سواری کا شرف حاصل ہوا اور وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنہیں چوسنے کے لئے اپنی زبان مبارک عطا کی، جنہیں اپنے لعاب دہن سے نواز، جنہیں اپنی آغوش رحمت میں بھلایا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)۔ یہ دونوں شہزادے حضرت علی شیر خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا کے فرزندان ارجمند تھے۔ لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھما، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میرے بھی لخت جگر ہیں یہ میری نسل سے ہیں، یہ میری ذریت ہیں اور فرمایا ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہوکر دادا پر ختم ہوتا ہے مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں وہ میرے بھی لخت جگر ہیں۔ نبی پاک نے فرمایا کہ ‘‘فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے’’۔
وہ حسین ابن علی ابن ابی طالب ہی ہیں جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اور یہ کہ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے اب جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔ اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کرلے گا بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیتے ہیں لیکن اصولوں پر کسی سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے اگر کربلا کے میدان میں حق بھی باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا، کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہوجاتی اور قیامت تک کے لئے جرات و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہوجاتا اور نانا کا دین زاغوں کے تصرف میں آ کر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہوجاتا۔ اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض دو طریقوں سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض، ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ امیر المومنین حضرت علی بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا کے حصہ میں آیا، فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی مرتضیٰ کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسین کو ذبح عظیم بنانا مقصو دتھا۔ ذبح اسماعیل کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین کے لئے حضور آئینہ رحمت کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب کرنے پر جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسین ابن علی کے مقتل کی مٹی بھی لاکر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علی کے نور نظر اور فاطمہ کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا وہ حسین ابن علی جو دوش پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوار تھا۔ وہ حسین جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔ وہ حسین جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے۔ وہ حسین جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین جس کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔(المعجم الکبر، 3 : 107، ح : 2814)۔
اسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ(ترجمہ) آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔ (المعجم الکبر، 3 : 109، ح : 2819)۔ غیب کی خبریں بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا۔60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں۔
نواسہ رسولؐ، جگر گوشہ بتولؓ، امام عالی مقام امام حسین ؑ کا حضور اکرم ﷺ کی نظر میں مقام
11
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں