دبئی (نیوز ڈیسک) مغرب میں اسلام فوبیا کا شکار صرف انتہا پسند تنظیمیں یا افراد ہی نہیں بلکہ بعض اوقات مغربی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فضائی کمپنیاں بھی مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ سرگرمیوں میں پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمانوں سے مذہبی منافرت کی بناء پر امتیازی سلوک کی مثالیں آئے روز سامنے آنے لگی ہیں۔ اس سلسلے کی ایک تازہ کڑی برطانیہ میں حال ہی میں پیش آئی جب بھارتی نڑاد تین مسلمان بہن بھائیوں کو لندن سے اٹلی جانے والی پرواز سے توہین آمیز طریقے سے اتار دیا گیا۔مسلمان بہن بھائیوں کے ساتھ یہ توہین آمیز واقعہ اخبار ’’انڈی پنڈنٹ‘‘ نے بھی بیان کیا ہے۔ اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی نڑاد تین مسلمان بہن بھائی مریم، علی اور سکینہ دارس برطانوی فضائی کمپنی ’’ایزی جیٹ‘‘ کی ایک پرواز کے ذریعے لندن کے اسٹاسٹڈ ہوائی اڈے سے اٹلی کے لیے عازم سفر تھے۔ جب پرواز کی روانگی کا وقت آیا تو طیارے کی ایک میزبان نے انہیں جہاز سے اترنے کا حکم دے دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بنا سبب طیارے سے اترنے کے حکم کی وجہ دریافت کی۔ اتنے میں پولیس کے مسلح اہلکاراور سادہ کپڑوں میں ملبوس انٹیلی جنس حکام نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان میں سے ایک اہلکارنے پوچھا کہ آپ لوگ انگزیری بولتے ہیں تو ہم نے بتایا کہ ہم صرف انگریزی ہی جانتے ہیں۔ کیونکہ ہماری پرورش مشرقی لندن کے علاقے میں ہوئی ہے۔ اس پر ایک پولیس اہلکار نے ہم تینوں کو کہا کہ تمہارے موبائل فون میں ایک مسافر نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامی ’داعش‘ کی حمایت میں مواد دیکھا گیا ہے۔ اس میں “الحمد اللہ” کے الفاظ بھی شامل تھے۔مریم نے بتایا کہ دو میاں بیوی نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے ہمارے موبائل فون میں داعش کی حمایت میں کوئی عربی عبارت دیکھی تھی۔ مریم کا کہنا تھا کہ میں اور میری بہن ہم دونوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس لیے ہم پر داعش کی حمایت کا الزام دھرنا آسان تھا۔ بعد ازاں پولیس اہلکاروں نے تینوں بہن بھائیوں کو نہایت توہین آمیز طریقے سے جہاز سے اتار دیا۔جہاز سے اتارے جانے کے بعد وہ تینوں سخت صدمے سے دوچار تھے۔ انہوں نے اس بارے میں واٹس ایپ کے ذریعے اپنے والد کو مطلع کیا۔ مریم کا کہنا تھا کہ ہم نے برطانوی پولیس افسر سے کہا کہ اگر موبائل فون پر قرآنی آیات لکھی ہوں تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ داعش سے ہمارا کوئی تعلق ہے۔متاثرہ بہن بھائیوں کا کہنا تھا کہ ہمارے پاسپورٹس پر لگے عراق کے ویزوں نے برطانوی پولیس کو اور بھی شک میں ڈال دیا تھا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم عراق میں داعش کی دہشت گردی سے متاثرہ شہریوں کی مدد کے لیے ایک بار عطیات جمع کرنے کے لیے گئے تھے۔ تاہم ہم ایک گھنٹے کی تفتیش کے بعد پولیس نے انہیں طیارے میں سوار ہونے کی اجازت دے دی تھی۔