دھماکس (نیوز ڈیسک) شام میں صدر بشارالاسد کی وزارت تعلیم نے سکول کے طلبہ کے لیے تاریخ کی کتابوں میں بعض اصطلاحات میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی ہے، جس میں خاص طور پر عثمانی دور کو ہدف بنایا گیا ہے۔تعلیمی سال 2016۔2017 کے لیے تاریخ کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں سلطنت عثمانیہ کے سلطان ” محمد فاتح” کے نام سے “فاتح” کی صفت کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کتاب میں ان کا نام صرف ” محمد ثانی” رہ گیا ہے۔آٹھویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں ایک عبارت اس طرح سے تھی “ہم قسطنطنیہ کی فتح کو واضح کریں گے”۔ یہ عبارت تحریف کے بعد یوں ہو گئی ہے “ہم قسطنطنیہ پر قبضے کی اہمیت کو واضح کریں گے”۔ اس کے علاوہ “قسطنطنیہ کی فتح” کو بدل کر “قسطنطنیہ کا سقوط” یا “قسطنطنیہ میں داخل ہونے” سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔تاریخ کی کتابوں میں سلطنت عثمانیہ کے لیے استعمال ہونے والے “فتح” کے لفظ کو ہر جگہ سیاق کے برخلاف “داخل ہونے” یا “قبضے” کے الفاظ سے بدل دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ صیغہ “عثمانی فتح” سے تبدیل ہو کر “عثمانی داخلے” یا “عثمانی قبضے” سے تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں بشار الاسد کی وزارت تعلیم کی جانب سے سرکاری طور دی گئی ہدایات پر عمل میں لائی گئی ہیں۔یہاں تک کہ بلقان سے متعلق تاریخی واقعات میں بھی تحریف کی گئی ہے۔”بلقان کی فتح” کو “بلقان میں داخلہ ” بنا دیا گیا ہے۔ وہ تمام علاقے “جوعثمانیوں نے فتح کیے” یہ عبارت اب تبدیل ہو کر وہ تمام علاقے “جن پر عثمانیوں نے قبضہ کیا” ہو گئی ہے۔شام میں دینی تعلیم کا مضمون ختم کرنے کا مطالبہ سب سے پہلے شامی حکومت کے مفتی احمد بدر الدین حسون نے 2013 کے آخر میں کیا تھا۔ انہوں نے مذکورہ مضمون کے بدلے “قومی تعلیم” کا مضمون شامل کرنے پر زور دیا تھا۔تاریخ کی کتابوں کی اصطلاحات میں بنیادی تبدیلیاں ظاہر کرنے والی دستاویز کی تصویر جاری ہونے کے بعد متعدد تبصرے سامنے آئے ہیں۔ شام کے طلبہ اب تک ان کتابوں کی سابقہ اصطلاحات کو پڑھ کر ہی پروان چڑھے تھے۔