انشورنس گروپ آئنٹا اپنے ملازمین کو رات کی نیند پوری کرنے کے بدلے میں 300 ڈالر سالانہ دیتا ہے۔امریکی فرم نے یہ فیصلہ اپنے ملازمین کی نیند پوری نہ ہونے کے باعث ان کے کام کی کارکردگی کے متاثر ہونے کے خدشات کے پیش نظر کیا ہے۔ادارے کی جانب سے ملازمین کی اس اقدام کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ کم ازکم سات گھنٹوں کے لیے اپنی آنکھیں بند کریں یعنی نیند لیں۔آئٹنا کے سٹاف میں شامل لوگ 20 راتوں کو سونے کے بدلے میں 25 ڈالر کما سکتے ہیں۔یہ سکیم سنہ 2009 میں متعارف کروائی گئی تھی۔ 25 ہزار ملازمین میں سے ابتدا میں 10 ہزار نے اس میں شرکت کی تھی جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد 12 ہزار ہوگئی تھی۔
آئنٹا کے نائب صدر بتاتے ہیں کہ ملازمین کتنی دیر سوتے ہیں اس کو ان کی کلائی پر موجود خود کار مانیٹر کے ذریعے ریکارڈ کیا جاسکتا ہے جو کہ فرم کے کمپیوٹرز سے منسلک ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملازمین پر اعتماد کر کے ان کی اپنے نوٹ کیے جانے والے نیند کے دورانیے کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
فرم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ایک صحتمند رویہ ہے جس کی توقع ہم اپنے سٹاف سے کرتے ہیں۔امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کی سنہ 2011 کی رپورٹ کے مطابق ایک اوسط ورکر نیند کی کمی کی وجہ سے سالانہ 11 اعشاریہ تین دن کے برابر کام کی اہلیت کھو دیتا ہے۔اس کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کو سالانہ 63 ارب 20 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔گذشتہ برس یورپ میں رینڈ کارپوریشن کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بھی سامنے آیا تھا کہ جو ملازمین سات گھنٹوں سے کم سوتے تھے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
آریانہ ہوفنگٹن 18 گھنٹے کام کرنے کی عادی تھیں لیکن ایک حادثے نے ان کی زندگی بدل دی اور پھر انھوں نے نیند کی اہمیت پر کتاب لکھی
گذشتہ برس ہی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو نے خبردار کیا تھا کہ نیند کم لینے کی عادت آپ کو بیمار کر سکتی ہے۔
اس تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ چھ گھنٹوں سے کم سوتے ہیں ان میں کسی وائرس کی وجہ سے سردی لگ جانے کے چانسز دیگر لوگوں کی نسبت چار گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
نیوز ویب سائٹ ہافنگٹن پوسٹ کی بانی آریانہ ہوفنگٹن کہتی ہیں کہ ایک دن آفس میں تھکن کے باعث گرنے سے قبل تک وہ بھی بہت کم نیند لینے والوں میں شامل تھیں۔
وہ 18 گھنٹے کام کرنے کی عادی تھیں تاہم اس حادثے کے باعث ان کا جبڑا ٹوٹ گیا اور آنکھ کے قریب زخم آیا۔
اس سے پہلے تک ان کے نزدیک کامیابی کی تعریف مختلف تھی۔ مگر اس واقعے کے بعد انھوں نے آٹھ گھنٹے کی نیند لینے کا ارادہ کیا۔ اس کے لیے وہ کمرے کے پردے گرا کر کمرے میں تاریکی کرتی تھیں اور اس بات کو بھی یقینی بناتی تھیں کہ نیند کے دوران ان کے ڈیجیٹل آلات سونے کے کمرے سے بہت دور ہوں۔
آریانہ ہوفنگٹن کہتی ہیں کہ اس عادت نے ان کے کام کی صلاحیت کو بڑھایا۔
اب انھوں نے اسی موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے۔ ’دی سلیپ ریولیوشن: ٹراسفارمنگ یور لائف، ون نائٹ ایٹ اے ٹائم‘
بزنس ومن جینیفر ایونز کہتی ہیں کہ جب میں تھکی ہوئی ہوتی ہوں تو ایسے میں فیصلہ سازی مشکل ہو جاتی ہے
جینیفر ایونز جو کہ کینیڈین مارکیٹنگ بزنس سکیوز سی ایم ایم کی شریک بانی ہیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ وہ مکمل نیند نہیں لے پاتیں۔
ان کی عمر 46 برس ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں تھکی ہوئی ہوتی ہوں تو ایسے میں فیصلہ سازی مشکل ہوتی ہے۔
انھوں نے اس بات کا اعترف بھی کیا کہ نیند کی کمی کی وجہ سے انھوں نے بہت غلط فیصلے بھی کیے۔
سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر جو کہ صرف چار سے پاچ گھنٹے سوتی تھیں
لیکن ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو نیند تو بہت کم لیتے ہیں لیکن ان کے کام کی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی، مثلاً سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر جو کہ صرف چار سے پاچ گھنٹے سوتی تھیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں نیورالوجی کی پروفیسر ینگ ہوئی فو کہتی ہیں کہ اس کی بہت سی جنیاتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
انھوں نے بتایا ایسا صرف ایک ہزار میں سے ایک شخص ہوتا ہے جو اتنی کم نیند لے اور کام بھی درست کرے۔
ڈاکٹر فوک کے مطابق آپ جنیاتی طور پر ایسے جینز کے حامل ہوں تب بھی آپ خود کو تھوڑی نیند لینے والا نہیں بنا سکتے۔
سات گھنٹے نیند پوری کرنے والے ملازمین کیلئے کمپنی نے انوکھا پیکج متعارف کرا دیا
1
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں