اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)بین الاقوامی جوہری تنظیم آئی اے ای اے میں پانچ برس تک پاکستان کے مندوب کی ذمہ داریاں نبھانے والے علی سرور نقوی نے کہا ہے کہ کہ این ایس جی میں پاکستان کا کیس بہت مضبوط ہے، جرمنی کے ابلاغی ادارے ڈی ڈبلیو ڈوچے ویلی سے بات کرتے ہوئے علی سرور نقوی نے کہا کہ پاکستان کو نیوکلئیر ٹیکنالوجی والے ہسپتال چاہیے ہیں، زراعت کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی چاہیے، اگر پاکستان این اس جی کا ممبر بن جاتا ہے تو ہم دوسرے ممالک سے توانائی حاصل کر سکیں گے۔ڈی ڈبلیو کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ این ایس جی میں پاکستان کا کیس بہت مضبوط ہے، پاکستان این ایس جی کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نیوکلئیر پروگرام بہت ایڈوانس ہے اور جو اس کا پرامن استعمال چاہتے ہیں۔
جرمن ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تجزیہ کار ماریہ سلطان بھی علی سرور نقوی کی رائے سے متفق نظر آتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان سن 2003 سے این ایس جی کا رکن بننے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ پاکستان 2010 اور 2011 میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے چئیرمین کے طور پر بھی رہا ہے، ’سرن‘ نیوکلئیر ریسرچ سینٹر میں 300 میں سے 37 سیاست دان پاکستانی ہیں، جو عالمی جوہری ریسرچ کے لیے کام کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کے کئی اقدامات ہیں۔ ماریہ مزید کہتی ہیں کہ پاکستان کا ایکسپورٹ کنٹرول قانون نیوکلئیر سپلائرز گائیڈ لائنز کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے اور پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست بھی ہے۔این ایس جی جوہری شعبے کے اہم معاملات پر نظر رکھتا ہے اور ان کے رکن ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت کرنے اور اسے درآمد کرنے کی اجازت ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس گروپ میں شمولیت کے لیے سفارتی محاذ پر کوششیں کر رہا ہے۔ نیوکلئیر سپلائرز گروپ اتفاق رائے کے تحت کام کرتا ہے اور کسی ایک ملک کا بھی بھارت کے خلاف ووٹ بھارت کو اس گروپ کا ممبر بننے سے روک سکتا ہے۔
نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت، بیان نے پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑا دی
![](https://javedch.com/wp-content/uploads/2016/06/1-22.jpg)
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں