بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے گرجاگھروں پرحملوں کے بعدمذہبی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ملک میں ہرشخص کواپنی پسندکا مذہب اختیار کرنے اوراس پرعمل کی مکمل آزادی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے دارالحکومت نئی دہلی میں عیسائی گروپوں کی جانب سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ میں کسی بھی مذہب کے خلاف تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔ میری حکومت کسی بھی اکثریتی یااقلیتی گروپ کودیگر کمیونٹیزکے خلاف نفرت پر اکسانے کی اجازت نہیں دے گی۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت میں اقلیتوں پرحملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے مذہبی منافرت بڑھی ہے اورحکمراں جماعت سے نظریاتی مماثلت رکھنے والی ہندوتنظیمیں کھلے عام ان عیسائیوں اور مسلمانوں کوہندو بنانے کادعویٰ کررہی ہیں جو ان کے مطابق پہلے ہندو تھے۔ سماجی وانسانی حقوق کے کارکنوں اور حزب اختلاف کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود وزیراعظم نے اب تک واضح الفاظ میں اس پروگرام کی مذمت نہیںکی تھی تاہم اب انھوں نے کہاکہ ہم کسی بھی وجہ سے کسی مذہب کے خلاف تشددبرداشت نہیں کرسکتے۔ میں ایسے حملوںکی سخت مذمت کرتاہوں۔ واضح رہے کہ دہلی میں گزشتہ چندہفتوں میں 5 گرجا گھروں کونشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی صدر اوبامانے بھی اپنے دورے میں انتباہ کیاتھا کہ بھارت کی ترقی کا راز اس کے مذہبی تفریق کے معاملات پرقابو پانے اوراقلیتوں سے انصاف میں مضمرہے۔ گجرات میں مودی کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں مسلم کش فسادات میں1,000سے زائد مسلمان شہیدکردیے گئے تھے جس پر مغربی ممالک نے برسوں مودی گریز پالیسی اختیارکیے رکھی۔ وزیراعظم نے کہاکہ ان کی حکومت ہرمذہب کابرابر احترام کرے گی۔ انھیں ترقی کے ایجنڈے کی وجہ سے اتنی زبردست انتخابی کامیابی ملی۔ یہ واضح نہیںکہ مودی کے تازہ بیان پر وشواہندو پریشداور آرایس ایس کاکیا ردعمل ہوگاجوکہتی رہی ہیںکہ گھر واپسی کے پروگرام میں کوئی برائی نہیں۔ دہلی میںبی جے پی کی شکست کے بعد تقریباً ہراخبار نے اداریوں اورماہرین نے تجزیوں میں کہا کہ بی جے پی کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا چاہیے، عوام نے ترقی کے لیے ووٹ دیے تھے، گھر واپسی جیسے پروگراموں کے لیے نہیں۔