’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا‘ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا‘ وہ مسکراتی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا‘ میں نے کندھے اچکائے اور نرم لہجے میں جواب دیا ’’نہیں اتنا زیادہ بھی نہیں‘ میں نے تین گھنٹے پہلے ناشتہ کیا تھا‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’پھر میرا خیال ہے‘ آپ نے زیادہ آرڈر دے دیا ہے‘ یہ دونوں ڈشیں بڑی ہیں‘ آپ اکیلے اتنا کھانا نہیں کھا سکیں گے‘‘ میں یہ سن کر چڑ گیا اور میں نے اس سے پوچھا ’’آپ اس ریستوران میں کیا کرتے ہیں‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’سر میں یہاں ویٹر ہوں‘ میں آپ جیسے مہمانوں کی خدمت کرتا ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور پوچھا ’’کیا آپ لوگ کھانے کا بل نہیں لیتے‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’سر یہ ریستوران ہے‘ ہم اگر بل نہیں لیں گے تو کاروبار کیسے چلائیں گے‘‘ میں نے عرض کیا ’’پھر میں کتنا آرڈر دیتا ہوں‘ میں کتنا کھانا کھاتا ہوں اور میں کتنا کھانا میز پر چھوڑ جاتا ہوں‘ آپ کو کیا تکلیف ہے‘ آپ بس آرڈر لو‘ کھانا دو اور بل وصول کرو‘آپ کو مجھے مشورہ دینے کی کیا ضرورت ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ سر آپ کی بات درست ہے لیکن کھانا ضائع ہونے سے ہمیں اور آپ کو نقصان ہو گا اور میں اپنے ملک اور اپنے ملک کے سیاح دونوں کو اس نقصان سے بچانا چاہتا ہوں‘‘مجھے ہنسی آ گئی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کو کیسے نقصان ہو گا‘‘ اس نے جواب دیا ’’سر دوسری ڈش کسی دوسرے بھوکے کام آ جائے گی‘ آپ یہ ڈش ضائع کر دیں گے تو اس کا اثر کسی نہ کسی شخص پر ہو گا اور وہ شخص میرا سماجی کولیگ ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور آپ میرے مالی نقصان پر کیوں پریشان ہیں‘‘ وہ بولا ’’سیاح خواہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو‘ اس کا بجٹ بہرحال محدود ہوتا ہے‘ ہم آپ کی جیب کا جتنا خیال رکھیں گے‘ اس کا فائدہ ہمارے ہی ملک کو ہو گا‘ آپ دوسری ڈش کے پیسوں سے بچوں کیلئے گفٹ خریدیں گے اور یہ گفٹ ہماری اکانومی کو مزید بہتر بنائے گا‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور آرڈر سے ایک ڈش ختم کرا دی۔
یہ فرانس کے ایک غیر معروف ٹاؤن کا واقعہ ہے‘ میں جمعہ کو فرانس پہنچا‘ پرفیوم ڈسٹرکٹ اور شیمپیئن شہر میری منزل ہیں‘ آپ نے فلموں میں شادی‘ سالگرہ اور فتوحات کے فنکشنز میں شرابیوں کو بوتل کھولتے دیکھا ہو گا‘ یہ لوگ مستی میں ایک دوسرے پر شراب کا چھڑکاؤ کرتے ہیں‘ یہ فوارے کی طرح ابلتی اور اڑتی شراب شیمپیئن کہلاتی ہے‘ دنیا کے زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ شیمپیئن ایک ٹاؤن کا نام ہے‘ یہ ٹاؤن کہاں واقع ہے‘ اس کا نام شیمپیئن کیوں ہے اور کس نے کب شیمپیئن نام کی شراب کو اس ٹاؤن کا نام دیا‘ یہ میں کسی اگلے کالم میں بتاؤں گا‘ فرانس میں ایک ایسا علاقہ بھی موجود ہے جو پرفیوم ’’ڈسٹرکٹ‘‘ کہلاتا ہے‘ دنیا میں خوشبو کے زیادہ تر برانڈ اس ڈسٹرکٹ میں بنتے ہیں‘ اس ضلع میں میلوں تک پھولوں کے باغات ہیں‘ خوشبو کی لیبارٹریاں اور فیکٹریاں بھی اس علاقے میں ہیں‘ میں ان دونوں جگہوں کو ڈسکور کرنے فرانس آیا ہوں‘ میں راستے میں لنچ کیلئے ایک غیر معروف ٹاؤن میں رکا اور اس ویٹر کے ہتھے چڑھ گیا‘ مجھے شروع میں اس کی بات بری لگی لیکن میں بہت جلد قائل ہو گیا‘ وہ درست کہہ رہا تھا‘ ہمیں خوراک ضائع نہیں کرنی چاہیے‘ ہماری بچائی ہوئی خوراک سینکڑوں‘ ہزاروں لوگوں کے کام آتی ہے‘ ویٹر کا مجھے ٹوکنا بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس چھوٹے سے واقعے میں ایک طویل فلاسفی چھپی ہے‘ آپ خود اندازہ کیجئے‘ دنیا میں ہر سال آدھی سے زائد خوراک ضائع ہو جاتی ہے‘ یہ تقریباً دو ارب ٹن خوراک بنتی ہے‘ یورپ میں ہر سال 22 ملین ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے‘ امریکا کے شہری 40 فیصد خوراک چکھے بغیر کوڑا دانوں میں پھینک دیتے ہیں‘ ایشیا میں بھی 42 فیصدخوراک ضائع ہو جاتی ہے‘ ہمارے ملک پاکستان میں بھی نصف سے زائد خوراک کچرہ گھروں میں ڈال دی جاتی ہے‘ فرانس کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق ہر سال 72 لاکھ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے‘ اس خوراک کا 67 فیصد حصہ خریدار خود اپنے ہاتھوں سے کوڑا دانوں میں پھینک دیتے ہیں جبکہ ریستورانوں اور دکانداروں کے ہاتھوں 15فیصد خوراک ضائع ہوتی ہے‘ ایک اندازے کے مطابق فرانس کا ہر شہری ہر سال 30 کلو خوراک ضائع کرتا ہے‘ حکومت کا خیال ہے‘ ہم اگر یہ خوراک بچا لیں تو ہم کروڑوں لوگوں کو مفت ’’فیڈ‘‘ کر سکتے ہیں چنانچہ فرانس کی حکومت نے اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پچھلے سال مئی میں ’’خوراک بچاؤ قانون‘‘ پاس کر دیا‘ حکومت نے قانون کے ذریعے ملک بھر کے ان تمام ریستورانوں‘ فوڈ مارکیٹوں اور خوراک کے سٹوروں کو پابند کر دیا جن کا رقبہ ساڑھے چار ہزار مربع فٹ سے زائد ہے‘ ان تمام اداروں کو پابند بنایا گیا یہ فلاح و بہبود کی تنظیموں سے معاہدے کریں گے‘ یہ زائد خوراک انہیں عطیہ کریں گے اور یہ تنظیمیں یہ کھانا ضرورت مندوں کو مفت فراہم کریں گی‘ ملک بھر میں جو ریستوران اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ ان کے مالکان گرفتار ہو جاتے ہیں اور انہیں دو سال قید بھگتنا پڑتی ہے یا پھر ہزار یورو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ یہ قانون صرف فرانس تک محدود نہیں ہے بلکہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں اور ان تمام ممالک کے ریستورانوں میں ویٹرز گاہکوں کو زیادہ آرڈر سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ بچا ہوا کھانا محفوظ کرنے اور این جی او تک پہنچانے میں ان کاخاصا وقت اور وسائل ضائع ہو جاتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی کوشش ہوتی ہے گاہک ضرورت سے زیادہ آرڈر نہ دیں تا کہ یہ کوفت سے بچ جائیں۔
یہ حکومتوں اور قوانین کا معاملہ ہے لیکن بھارت کے ایک شہری نے دنیا کا پہلا روٹی بینک بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ اس شخص کا نام یوسف مکاتی ہے‘ یہ مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کا رہنے والا ہے‘ عمر 38 سال ہے‘ یوسف مکاتی نے دسمبر 2015ء میں اپنی بیگم کوثر اور چار بہنوں سیما‘ ممتاز‘ شہناز اور ہما کے مشورے سے روٹی بینک شروع کیا‘ یہ ایک اچھوتا آئیڈیا ہے‘ یہ لوگ مخیر حضرات سے روٹیاں اور سالن جمع کرتے ہیں اور یہ کھانا ضرورت مندوں کو دے دیتے ہیں‘ یوسف مکاتی کا بینک صبح 11 بجے کھلتا ہے اور رات 11 بجے تک کھلا رہتا ہے‘ یہ لوگ مخیر حضرات کو بیگ فراہم کرتے ہیں‘ ہر بیگ کے اوپر کوڈ نمبر لکھا ہوتا ہے‘ مخیر حضرات بیگ میں کھانا ڈال کر بینک میں جمع کرا جاتے ہیں اور یہ لوگ یہ کھانا گرم کر کے ضرورت مندوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘ شہر کا کوئی بھی شخص ایک سادہ فارم پُر کر کے اس بینک کا ممبر بن سکتا ہے‘ مخیر حضرات دن میں جتنی بار چاہیں کھانا عطیہ کر سکتے ہیں‘ یوسف مکاتی کو پہلے مہینے اڑھائی سو ڈونر ملے‘ یہ ڈونر ہزار لوگوں کا کھانا فراہم کرتے تھے‘ ڈونرز کی تعداد اب دو ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ روزانہ دس ہزار لوگ روٹی بینک سے کھانا کھا رہے ہیں‘ یہ بینک ہر مذہب‘ رنگ اور نسل کے لوگوں کو کھانا دیتا ہے‘ شہر کے شادی ہال بھی یوسف مکاتی کے اس نیک کام میں شریک ہو چکے ہیں‘ 6 غیر مسلم شادی ہال بینک کو روزانہ کھانا دے رہے ہیں جبکہ درجن سے زائد مسلم شادی ہال بھی کھانا فراہم کرنے والوں میں شریک ہیں‘ یوسف مکاتی نے مخیر حضرات کی مدد سے بڑے بڑے فریزر خرید لئے ہیں‘ یہ کھانا فریزر میں محفوظ کر لیا جاتا ہے‘ یہ پیکٹ کھانے کے وقت نکالے جاتے ہیں اور گرم کر کے ضرورت مندوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں‘ یوسف مکاتی نے یہ آئیڈیا اتر پردیش کے شہر بندیل کھنڈ سے لیا تھا‘ بندیل کھنڈ کے 40 نوجوانوں نے اپریل میں ایک چھوٹی سی ’’این جی او‘‘ بنائی‘ اس این جی او نے شہر کو 8 حصوں میں تقسیم کیا‘ مخیر حضرات سے کھانا جمع کرنا شروع کیا اور یہ 400 لوگوں کو کھانا دینے لگے‘ یہ خبر ٹیلی ویژن پر چلی‘ یوسف مکاتی نے دیکھی تو اس نے اس آئیڈیا کو مزید ریفائن کر کے باقاعدہ روٹی بینک بنا لیا‘ ہم لوگ بھی اس آئیڈیا سے سیکھ سکتے ہیں‘ ہم بھی ریستورانوں اور شادی ہالوں سے کھانا جمع کرنا شروع کریں‘ ہم محلے کی سطح پر ’’روٹی بینک‘‘ بنائیں‘ محلے کا ہر گھر زائد کھانا پیک کر کے ’’روٹی بینک‘‘ کے حوالے کرے اور یہ بینک کچی آبادی کے لوگوں کو کھانا پہنچا دیں تو آپ اندازہ کیجئے ملک میں کتنا بڑا انقلاب آ جائے‘ کاش ہمارے ملک میں بھی یوسف مکاتی جیسے لوگ سامنے آئیں اور کاش ہماری حکومتوں کو بھی فرانس کی حکومت کی طرح احساس ہو جائے‘ کاش یہ بھی خوراک کے تحفظ کا بل پاس کر دیں‘ یہ بھی گٹروں کی طرف جاتی خوراک کا رخ بھوکے ہونٹوں کی طرف موڑ دیں‘ یہ بھی دنیا کو مسلمان ہونے کا احساس دلا دیں‘ یہ معمولی کام ہیں‘ ہماری حکومتیں اور ہمارا معاشرہ یہ معمولی کام بڑی آسانی سے سرانجام دے سکتاہے بس یوسف مکاتی جیسے لوگوں کو سامنے آنا چاہیے اور چودھری نثار جیسے لوگوں کو ’’تحفظ خوراک‘‘ کا بیڑا اٹھا لینا چاہیے اور ملک بھر میں خوراک کا انقلاب آ جائے گا‘ وہ لوگ جو آج بھوکے پیٹ کے ساتھ سونے پر مجبور ہیں وہ شکر کا کلمہ پڑھ کر اطمینان کی نیند سوئیں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی نیند کا ثواب عنایت کرتا جائے گا۔
روٹی بینک
12
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں