نئی دہلی (نیوز ڈیسک)آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے قراردیاہے کہ سکائپ ، واٹس ایپ ، فیس بک ، ای میل ، ایس ایم ایس ، ٹیلی فون کال اور دیگرسوشل میڈیا ایپس کے ذریعے دی گئی طلاق درست ہے اور اس سے علیحدگی ہوجاتی ہے ۔بورڈ نے سپریم کورٹ کے ان ریمارکس پر اظہار ناپسندیدگی کیا جن میں مسلم خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کےلئے اسلامی قوانین کے مطالعہ کی تجویز دی گئی تھی ۔بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بورڈ کے سینئر رکن اور ترجمان محمد عبدالراہل قریشی نے کہاکہ عدالتی حکم قانونی طورپر مناسب نہیں کیونکہ مسلم لاءمذہب کا لازمی حصہ ہے ، مذہبی آزادی بنیادی حق ہے جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 25میں بھی دی گئی ۔طلاق کے بعد خاتون کے حقوق سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوسری شادی کرسکتی ہے ، طلاق کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کرسکتی یا پھر ایک کمرے میں لاک کردیں ، ہمارے ججوں اور دیگر لوگوں کے ذہن میں غلط فہمی ہے ۔ قریشی نے بتایاکہ ایک یا تین طلاقیں اکٹھی دینے میں کوئی فرق نہیں ، ایک یا تین طلاقوں کی مدت کے بعد خاتون آزاد ہے ، اس میں کوئی فرق نہیں تاہم اگر تین طلاقیں ایک ہی دفعہ دینے کے بعد مرد کو محسوس ہوتاہے کہ اس نے غلطی سے انتہائی اقدام اٹھایاہے تو وہ عدت کی مدت کے دوران اپنی اہلیہ کو واپس لاسکتاہے ۔ سوالات کے جوابات میں عبدالراہل قریشی کاکہناتھاکہ اگر کوئی خاتون علیحدگی چاہتی ہے تو وہ خلع کیلئے رجوع کرسکتی ہے تاہم طلاق کا اختیار صرف مرد کے پاس ہے ، خاتون کو طلاق کی وجہ بتاناہوگی تاہم یہاں اسلامی عدالتیں نہیں ہیں اور امام سے اس ضمن میں رابطہ کیاجاسکتاہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے
سروں کی دنیا میں راحت فتح علی خان کی بادشاہت خطرے میں
طلاق کی وضاحت کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ مرد کو اپنی اہلیہ کو طلاق دینے کا اختیار ہے اور اس کیلئے صرف وہ چیز چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کو شناخت کرسکیں ۔بتایاگیاکہ عدالت نے حالیہ دنوں میں ایک آئینی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ طلاق پر خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق 1986ءمیں راجیو گاندھی حکومت کے دور میں پاس ہونیوالے ایکٹ کا جائزہ لیاجاسکے ۔عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ ہندو فیملی لاءمیں 50کی دہائی میں ترامیم ہوئیں لیکن مسلم پرسنل لاءتقریباً ویساہی رہا۔