”آپ آج بھی سوشل میڈیا کو غیر سنجیدہ سمجھتے ہیں“ نوجوان کی آنکھوں میں چمک تھی‘ کافی شاپ گاہکوں سے بھری تھی‘ میں شیشے کے ساتھ بیٹھ کر لان کے فوارے کو دیکھ رہا تھا‘ نوجوان مجھے دیکھ کر اندر آ گیا‘ سلام کیا اور براہ راست سوال پوچھ لیا‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ نوجوان نے کھڑے کھڑے کہا ”آرمی چیف کے خلاف سوشل میڈیا پر چھوٹی سی کمپین چلی اور جنرل راحیل شریف کی طرف سے وضاحت آ گئی‘ کیا یہ وضاحت سوشل میڈیا کی طاقت کی دلیل نہیں“ مجھے نوجوان کا سٹائل برا لگا لیکن اس کی بات میں جان تھی‘ میں نے اس سے عرض کیا ”میں سوشل میڈیا کو غیر سنجیدہ نہیں امیچور سمجھتا ہوں“ اس کا اگلا سوال تھا ”کیا الیکٹرانک میڈیا میچور ہے“ میں نے عرض کیا ”نہیں لیکن یہ اب میچور ہو رہا ہے‘ آپ اگلے پانچ برسوں میں نیوز چینلز میں بہت تبدیلی دیکھیں گے“ نوجوان نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا‘ اس کا کہنا تھا ”آپ میچورٹی کو سائیڈ پر رکھئے اور صرف یہ دیکھئے‘ سوشل میڈیا پر تین ماہ یہ کمپین چلی کہ جنرل راحیل شریف میاں نواز شریف سے ایکسٹینشن لینا چاہتے ہیں‘ اس توسیع کےلئے کراچی آپریشن کو پورے سندھ‘ الطاف حسین کیس کو لندن سے اسلام آباد اور ضرب عضب کو جنوبی وزیرستان سے جنوبی پنجاب تک پھیلایا جا رہا ہے‘ داعش بھی اسی خواہش سے جنم لے رہی ہے اور ایران‘ افغانستان اور بھارت سے دوستی کی پینگیں بھی اسی لئے بڑھائی جا رہی ہیں‘ یہ پروپیگنڈا اتنا تیز تھا کہ آرمی چیف اپنی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ پہلے ایکسٹینشن نہ لینے کے اعلان پر مجبور ہو گئے“ میں نے نوجوان کو ساتھ بٹھا لیا اور اس سے عرض کیا ”بیٹا یہ اعلان سوشل میڈیا کی کامیابی نہیں‘ یہ فوج اور ملک میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کی کامیابی ہے‘ ہمیں ان تبدیلیوں پر اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور خوش بھی ہونا چاہیے“ نوجوان نے اس سے بھی اتفاق نہیں کیا“ وہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کو سوشل میڈیا کی کامیابی قرار دے رہا تھا اور اس نے اس پر اسی طرح پوزیشن لے لی جس طرح عمران خان لے لیتے ہیں چنانچہ میں پیچھے ہٹ گیا‘ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور کھڑے ہو کر احترام سے اسے رخصت کر دیا۔
جنرل راحیل شریف کا بیان ملک میں تین دن سے زیر بحث ہے‘ میرے دوست مظہر عباس اس بیان کو غیر ضروری سمجھتے ہیں‘ ان کا خیال ہے‘ آرمی چیف کو دس مہینے پہلے یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے‘ سوشل میڈیا اور افواہ گزٹ کے ذریعے پچھلے تین مہینوں سے یہ خبر پھیلائی جا رہی تھی‘ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں‘ اس توسیع کےلئے باقاعدہ گراﺅنڈ بنایا جا رہا ہے‘ کراچی آپریشن کا دائرہ کرپشن تک وسیع کیا جا رہا ہے‘ رینجرز کے اختیارات پورے سندھ تک بڑھائے جا رہے ہیں” رینجرز پنجاب میں کیوں نہیں“ جیسے سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں‘ داعش کی خبروں میں بھی تیزی آ رہی ہے‘ افغانستان اور بھارت سے دہشت گردوں کی ٹیلی فون کالز کے باوجود کارروائیاں نہیں روکی جاتیں اور جان بوجھ کر نیشنل ایکشن پلان پر بھی خاموشی اختیار کی جارہی ہے‘ یہ پروپیگنڈا بھی عام تھا میاں نواز شریف بھی جنرل راحیل شریف کو ایک سال کی توسیع دینا چاہتے ہیں‘ اس کے جواز میں دلیل دی جاتی تھی‘ جنرل راحیل شریف ایک سال کی توسیع کے بعد نومبر 2017ءمیں ریٹائر ہوں گے‘ میاں نواز شریف نیا چیف تعینات کریں گے‘ یہ چیف ابھی بریفنگز اور تقرریوں کے فیز سے گزر رہا ہو گا کہ 2018ءکے الیکشن ہو جائیں گے اور میاں نواز شریف ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے‘ یہ تاثر بھی پھیلایا جا رہا تھا جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کے بڑے بھائی اور نشان حیدر ہولڈر میجرشبیر شریف کے بیچ میٹ اور قریبی دوست تھے‘ جنرل راحیل شریف جنرل پرویز مشرف کو اپنا بڑا بھائی بھی سمجھتے ہیں اور محسن بھی۔ میاں نواز شریف اور جنرل مشرف کے اختلافات پوری دنیا کے سامنے ہیں‘ یہ خدشہ موجود ہے‘ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائیاں شروع ہو جائیں گی‘ یہ آرٹیکل چھ کے مجرم بھی بنا دیئے جائیں گے اور ان پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا شکنجہ بھی کس دیا جائے گا لہٰذا اگر جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن مل جاتی ہے تو اس سے جنرل مشرف کی ”لائف لائین“ میں اضافہ ہو جائے گا‘ ان کے خلاف مقدمات بھی نبٹ جائیں گے اور یہ آرام سے دوبئی یا لندن میں ”سیٹل“ بھی ہو سکیں گے لیکن جنرل راحیل شریف نے ”ایکسٹینشن“ نہ لینے کا اعلان کر کے ان تمام افواہوں‘ اس سارے پروپیگنڈے پر پانی پھیر دیا اور یہ ثابت ہو گیا جنرل راحیل شریف کے بارے میں یہ رائے غلط تھی‘ یہ اپنے وعدوں اور الفاظ دونوں کے مجاہد ہیں‘ یہ اپنے لفظوں کی حرمت کا خیال رکھنے والے شخص ہیں۔
میں سمجھتا ہوں جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے دس ماہ پہلے یہ اعلان کر کے عقل مندی اور جرا¿ت کا ثبوت دیا‘ اس سے ان کے امیج میں بھی اضافہ ہوا‘ فوج کی عزت بھی بڑھی اور سیاسی حکومت پر بھی دباﺅ پڑا‘ یہ اگر یہ بیان نہ دیتے تو اگلے چند ماہ کے دوران ملک میں جو بھی واقعہ پیش آتا وہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی فائل میں درج ہوجاتا‘ ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افواہوں میں بھی تیزی آ جاتی اور اگر جنرل راحیل ان افواہوں کے توڑ کےلئے یہ بیان ستمبر اکتوبر میں دیتے تو یہ سمجھا جاتا آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے انکار کر دیا اور یہ اب شرمندگی سے بچنے کےلئے اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں چنانچہ میں سمجھتا ہوں‘ یہ بیان بروقت بھی ہے‘ دلیرانہ بھی اور دانش مندانہ بھی۔ آرمی چیف نے یہ بیان جاری کر کے ملک میں نئے اخلاقی معیار بھی طے کئے ہیں‘ قوم اس اعلان کے بعد سیاستدانوں سے بھی یہ توقع رکھتی ہے‘ یہ بھی اب اسی طرح کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ عوام کو اعتماد میں لیں گے‘ یہ بھی اب اعلان کریں گے‘ کراچی میں بلدیاتی الیکشن جیتنے کے بعد اختیارات ایم کیو ایم کا حق ہے اور یہ حق انہیں پسینہ خشک ہونے سے پہلے ملے گا‘ یہ بھی اب اعلان کریں گے‘ عمران خان نے 2013ءمیں جن چار حلقوں کا مسئلہ اٹھایا تھا وہ چار حلقے متنازعہ ہو چکے ہیں‘ لودھراں کے این اے 154 سے پاکستان مسلم لیگ ن کا امیدوار ہار چکا ہے‘ علیم خان این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے ثبوت لے کر پھر رہے ہیں‘ خواجہ سعد رفیق ”سٹے آرڈر“ پر ہیں اور خواجہ آصف کے حلقے این اے 110 میں بھی سپریم کورٹ کافیصلہ آ چکا ہے چنانچہ حکومت ان تینوں حلقوں میں ایک بار پھر الیکشن کرا رہی ہے‘ یہ بھی اب اعلان کریں گے‘ ملک میں کوئی وزیراعظم ایکسٹینشن نہیں لے گا‘ وزیراعظم امریکا کی طرح صرف دو بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائے گا‘ یہ تیسری بار الیکشن نہیں لڑے گا‘ یہ بھی اب اعلان کریں گے سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ایک نیب بنایا جائے گا‘ یہ سیاسی نیب سیاسی جماعتوں میں کرپشن کی تحقیقات کرے گا اور سیاسی جماعت کا جو کارکن اور جو لیڈر کرپشن میں ملوث پایا جائے گا اسے فوری طور پر پارٹی اور سیاست دونوں سے فارغ کر دیا جائے گا اور یہ بھی اب اعلان کریں گے‘ ملک میں آج سے کسی شخص‘ کسی عہدیدار کو ایکسٹینشن نہیں ملے گی‘ کوئی شخص خواہ کتنا ہی اہم اور ناگزیر کیوں نہ ہو اس کی مدت ملازمت میں ایک دن کی بھی توسیع نہیں ہو گی‘ وہ وقت پر ریٹائر ہو گا اور ملک کی کوئی اتھارٹی اس کی مدت میں اضافہ نہیں کر سکے گی۔
ہمیں سماجی سطح پر بھی چند بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی‘ ملک میں اچھے انسانوں‘ اچھے فیصلوں اور اچھے اقدامات کی تعریف کا کلچر بھی متعارف ہونا چاہیے‘ ہمیں کھلے دل سے ” کے پی کے“ میں ہونے والی اصلاحات کا اعتراف کرنا چاہیے‘ ہم سیاسی مخاصمت میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی اچھائیوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے‘ یہ پورے صوبے کے ساتھ زیادتی ہے‘ ہمیں یہ خوبیاں ماننا ہوں گی‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ‘ملک میں پچھلے تین برسوں میں کرپشن میں کمی آئی‘ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کل اپنی رپورٹ جاری کی‘ اس رپورٹ میں پاکستان کی پوزیشن میں نو درجے اضافہ ہوا‘ یہ اضافہ خوش آئند ہے اور ہمیں اس بہتری پر حکومت کو شاباش دینی چاہیے‘ ہمیں یہ بھی ماننا چاہیے‘ ملک کی اقتصادی سمت درست ہے‘ یہ سمت اگر اسی طرح رہی تو پاکستان پانچ برسوں میں مالیاتی بحرانوں سے نکل آئے گا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا‘ بھارت‘ایران‘ سعودی عرب اور امریکا کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی کی سمت بھی ٹھیک ہے‘ میاں نواز شریف 20 اکتوبر2015ءکو امریکا کے دورے پر گئے تھے‘ وزیراعظم نے امریکا میں بیٹھ کر فیصلہ کیا‘ ہم امریکیوں سے امداد نہیں مانگیں گے‘ ہم ان سے پیسوں کا مطالبہ بھی نہیں کریں گے‘ پاکستانی وفد تمام میٹنگز کے دوران اپنے اس وعدے پر قائم رہا‘ امریکی اس رویئے پر آج تک حیران ہیں‘ امریکا نے پاکستانی وفد کو توانائی کی وزارت میں کھانے کی دعوت دی‘ پاکستان نے معذرت کر لی‘ پھر وزارت خزانہ میں بھی دعوت دی گئی‘یہ بھی مسترد کر دی گئی‘ آخر میں پاکستانی وفد جان کیری کی درخواست پر پینٹا گان گیا اور امریکا کے سیکرٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے وزیراعظم کا والہانہ استقبال کیا‘ یہ رویہ بھی قابل تعریف ہے اور ہمیں اس رویئے کی تعریف بھی کرنی چاہیے‘ یہ درست ہے بیورو کریسی کا سلوک اچھا نہیں ہوتا‘ ہمیں برے اور کرپٹ افسروں کی مذمت کرنی چاہیے لیکن ہمیں جہاں اچھے اور ماہر افسر نظر آئیں‘ ہم میں ان کی تعریف کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے مثلاً خیبر پختونخواہ کے آئی جی ناصر خان درانی شاندار انسان ہیں‘ انہوں نے قریباً اڑھائی برسوں میں کے پی کے پولیس کا سارا کلچر بدل دیا‘ ہم ان کی خدمات کا اعتراف کیوںنہیں کرتے! وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد بہت اچھے اور قابل انسان ہیں‘ یہ مثبت ذہن کے افسر ہیں‘ یہ فائلیں دبا کر نہیں بیٹھتے‘ میں پوری کوشش کے باوجود آج تک یہ نہیں سمجھ سکا لوگ ان کے خلاف کیوں ہیں؟ ڈاکٹر توقیر شاہ نہایت ایماندار‘ اہل اور متوازن شخصیت کے افسر ہیں‘ یہ چھ سال وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹری رہے‘ آپ ان کے دور اور ان کے بعد کے دور کا تجزیہ کر لیں‘ آپ توقیر شاہ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے مگر افسوس سانحہ ماڈل ٹاﺅن کو ان کے گلے میں ڈال کر انہیں فارغ کر دیا گیا‘ یہ آج کل جنیوا میں ہیں‘ میں ان جیسے شخص کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر شرمندہ ہو جاتا ہوں‘ ہم اگر نااہل لوگوں کی مذمت کرتے ہیں تو ہم اہل لوگوں کی تعریف کیوں نہیں کرتے! ہم اس معاملے میں اتنے بخیل کیوں ہیں؟ ہمیں یہ رویہ بھی بدلنا ہوگا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بروقت اور شاندار فیصلہ کیا‘ ہمیں اب اس فیصلے میں کیڑے نہیں ڈالنے چاہئیں‘ ہمیں ان کی تعریف کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں جب بھی کوئی آرمی چیف ایکسٹینشن لینے لگے تو اسے جنرل راحیل شریف یاد آ جائیں اور وہ اپنی فائل پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دے۔
جب بھی کوئی آرمی چیف
28
جنوری 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں