کراچی(نیوزڈیسک)ٹیکس ایمنیسٹی اسکیم یا کالا دھن سفید کرا لو اسکیم کے اجراءپر ماہرین معاشیات کاکہنا ہے کہ معیشت ایک بار پھر ہم سے یہ سوال کر رہی ہے کہ آخر ہماری حکومتیں اتنی بے بس کیوں ہوتی ہیں کہ ہر 5 یا 10 سالوں میں ایک ایسی اسکیم کا اعلان کر دیتی ہیں کہ جس میں ٹیکس چوروں کے لئے معافی اور باقاعدگی سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ماہرین معاشیات کے مطابق آپ اس ملک میں کاروبار کریں، خوب کمائیں اور ایک دھیلا ٹیکس نہ دیں، یا آپ بد عنوانی کر کے جائیدادیں بنائیں، اپنی تجوریاں بھریں اور پھر ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا انتظار کریں جس میں کچھ رقم حکومت کی جھولی میں ڈال کر اپنا کالا دھن سفید کرا لیں۔ موجودہ حکومت نے بھی اسی طرح کی اسکیم متعارف کرائی ہے، جسے اس بار ٹیکس ایمنسٹی نہیں ٹیکس پیکج کا نام دیا گیا ہے۔ہمارے ملک کی نحیف و ناتواں معیشت اپنے ذہین اور دانشمند وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے یہ سوال کر رہی ہے کہ کیا یہ اسکیم ان لوگوں کے ساتھ مذاق نہیں جو باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں، کیا یہ اسکیم ان لوگوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گی، جو دیانت داری سے کاروبار کرتے ہیں۔ کیا یہ اسکیم ان لوگوں کے حوصلے پست نہیں کرے گی، حو ایمانداری سے ٹیکس دیتے ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ حکومت نے ٹیکس چوروں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ماہرین معاشیات کے مطابق اگر اسی طرح کی اسکیموں کا سہارا لے کر ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو ایف بی آر جیسے ادارے کی کیا ضرورت ہے؟ نادرا کی جانب سے ایسے 30 لاکھ افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے پوش علاقوں میں ایک سے زائد گھر اور کئی بینک اکاﺅنٹس ہیں، مزے سے بیرون ممالک گلچھڑے اڑاتے ہیں، لیکن قومی خزانے کو ایک ٹکہ ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت اور ایف بی آر ایسے افراد پر اپنی گرفت سخت کرنے کے بجائے تنخواہ دار طبقے کی گردنوں میں ٹیکسوں کا طوق ڈالے جا رہی ہے۔