منگل کا دن تھا‘ نومبر کا مہینہ تھا‘ تاریخ 17 تھی اور سن تھا 2015ئ‘ قاری عبدالرحمن انہیں کراچی ائیر پورٹ پر ڈراپ کر کے واپس چلے گئے‘ راستے سے فون کیا‘ جواب دیا ” بورڈنگ کارڈ میری جیب میں ہے‘ ظہر کی نمازپڑھ لی ہے‘ فلائیٹ وقت پر ہے‘ عصر انشاءاللہ لاہور میں پڑھوں گا“ قاری صاحب مطمئن ہو گئے‘ دن کے سوا بجے تھے‘ فلائیٹ نے ڈیڑھ بجے اڑنا تھا‘ قاری عبدالرحمن نے ڈیڑھ بجے دوبارہ فون کیا‘ انہوں نے فون اٹھایا لیکن وہ بول نہ سکے‘ قاری صاحب کو ان کے کراہنے اور اونچی اونچی سانس لینے کی آوازیں سنائی دیں‘ قاری صاحب نے بلند آواز سے پوچھا ”حضرت آپ خیریت سے ہیں‘ آپ ٹھیک تو ہیں“ وہ جواب دے رہے تھے لیکن بات سمجھ نہیں آ رہی تھی‘ قاری صاحب اس وقت شاہراہ فیصل پر تھے‘ وہ مڑے اور گاڑی واپس ائیر پورٹ کی طرف دوڑا دی‘ وہ راستہ بھر انہیں فون کرتے رہے لیکن انہوں نے دوبارہ فون نہیں اٹھایا‘ قاری صاحب ائیر پورٹ پہنچے‘ ائیر پورٹ حکام سے ملے‘ انہیں بتایا‘ فلاں مسافر شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ سے لاہور جا رہے تھے لیکن وہ لاﺅنج میں بیمار پڑے ہیں‘ مجھے ان تک لے جائیں‘ حکام نے فوراً جواب دیا‘ شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ جا چکی ہے‘ آپ کا مسافر چلا گیا ہے‘ قاری صاحب نے ان کے سامنے موبائل ملایا‘ ان کے فون پر بیل جا رہی تھی‘ قاری صاحب نے حکام کو فون دکھایا اور بتایا‘ میرے مسافر کا فون آن ہے‘ وہ ابھی تک لاﺅنج میں موجود ہیں‘ مجھے اندر لے جائیں‘ حکام نے انکار کر دیا‘ قاری صاحب گیٹ پر کھڑے ہو کر انہیں مسلسل فون کرنے لگے‘ تھوڑی دیر بعد کسی صاحب نے فون اٹھا لیا‘ قاری صاحب نے کہا ”آپ فون اشتیاق صاحب کو دے دیں“ اس صاحب نے دکھی آواز میں جواب دیا ”آپ کے مسافر انتقال کر چکے ہیں“ قاری صاحب کے منہ سے چیخ نکل گئی‘ انہیں اس بار اندر جانے کی اجازت مل گئی‘ وہ اندر پہنچے تو ٹوٹے ہوئے گندے سے سٹریچر پر پاکستان کے اس عظیم مصنف کی لاش پڑی تھی جس نے 45 برس تک ملک کی تین نسلوں کی فکری رہنمائی کی‘ جس نے 100 کتابیں اور 800 ناول لکھے‘ جس نے دو ہزار صفحات پر مشتمل اردو زبان کا طویل ترین ناول لکھا‘ آپ کا بچپن یا لڑکپن اگر ستر‘ اسی یا نوے کی دہائی میں گزرا ہے اور آپ کا کتاب سے ذرا سا بھی تعلق رہا ہے تو پھر اس گندے اور ٹوٹے ہوئے سٹریچر پر پڑی وہ لاش آپ کی محسن تھی۔
وہ پوری زندگی بچوں کےلئے سسپنس سے بھرپور جاسوسی اور تفتیشی کہانیاں لکھتے رہے‘ آخر میں اپنے لئے موت پسند کی تو وہ بھی تفتیش اور سسپنس سے بھرپور تھی‘ کراچی ائیرپورٹ پر اس عالم میں فوت ہوئے کہ ان کے ہاتھ میں بورڈنگ پاس تھا اور ائیرپورٹ کے سپیکروں سے اعلان ہو رہا تھا ” شاہین ائیر لائین کے ذریعے کراچی سے لاہور جانے والے مسافر اشتیاق احمد فوری طور پر فلاں گیٹ پر پہنچ جائیں“ اعلان ہوتا رہا اور بورڈنگ پاس ہوا میں لہراتا رہا لیکن وہ سیٹ سے نہ اٹھ سکے‘ جہاز لاہور چلا گیا اور وہ جہاز کے بغیر آخری منزل کی طرف روانہ ہو گئے اور ملک کے وہ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے جن کے وہ چاچا جی تھے‘ اشتیاق چاچا جی‘ ایک ایسے چاچا جی جنہوں نے انہیں بچپن میں ادب اور نیکی دونوں کی لت لگا دی تھی‘ جنہوں نے انہیں پاکستانی بنایا تھا‘ اردو زبان میں بچوں کے ادب کے سب سے بڑے خالق اشتیاق احمد ہم سے بچھڑ گئے۔
اشتیاق احمد ایک ایسے انسان تھے جن کےلئے سیلف میڈ جیسے لفظ بنے ہیں‘ بھارتی پنجاب کے قصبے کرنال میں پیدا ہوئے‘ پاکستان بننے کے بعد والدین کے ساتھ جھنگ آ گئے‘ خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھی غریب تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ بڑی مشکل سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی‘ لاہور میں میونسپل کارپوریشن میں ملازم ہو گئے‘ سو روپے ماہانہ معاوضہ ملتا تھا‘ خاندان بڑا تھا‘ آمدنی کم تھی چنانچہ وہ شام کے وقت آلو چھولے کی ریڑھی لگانے لگے‘ یہ ”کاروبار“ چل پڑا تو کمپنی کو پان اور سگریٹ تک پھیلا دیا‘ وہ دن کی ملازمت اور شام کے کاروبار سے ایک گھنٹہ بچاتے تھے اور رات سونے سے پہلے کہانیاں لکھتے تھے‘ ان کی پہلی کہانی 1960 ءکی دہائی میں کراچی کے کسی رسالے میں شائع ہوئی‘ وہ کہانی اشتیاق صاحب کےلئے رہنمائی ثابت ہوئی اور وہ باقاعدگی سے لکھنے لگے‘ کہانیاں سیارہ ڈائجسٹ میں شائع ہونے لگیں‘ وہ کہانی دینے کےلئے خود ڈائجسٹ کے دفتر جاتے تھے‘ کہانی بھی دے آتے تھے اور مفت پروف بھی پڑھ دیتے تھے‘ پبلشر کو ان کی یہ لگن پسند آ گئی‘ اس نے انہیں پروف ریڈر کی جاب آفر کر دی‘ اشتیاق صاحب نے میونسپل کارپوریشن کی پکی نوکری چھوڑی اور 100 روپے ماہانہ پر کچے پروف ریڈر بن گئے‘ وہ اب کہانیاں لکھتے تھے اور پروف پڑھتے تھے‘ کہانیاں رومانوی ہوتی تھیں‘ ان کی چند کہانیاں ”اردو ڈائجسٹ“ میں بھی شائع ہوئیں‘ 1971ءمیں پہلا ناول لکھا‘ وہ ناول رومانوی تھا‘ پبلشر نے وہ ناول پڑھنے کے بعد انہیں جاسوسی ناول لکھنے کا مشورہ دیا‘ اشتیاق صاحب نے قلم اٹھایا‘ محمود‘ فاروق‘ فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے لافانی کردار تخلیق کئے اور صرف تین دن میں ناول مکمل کر کے پبلشر کے پاس پہنچ گئے اور پھر اس کے بعد واپس مڑ کر نہ دیکھا‘ وہ شروع میں شیخ غلام علی سنز کےلئے لکھتے تھے‘ پھر شراکت داری پر ”مکتبہ اشتیاق“ بنالیا اور آخر میں اشتیاق پبلی کیشنز کے نام سے اپنا اشاعتی ادارہ بنا لیا‘ وہ ہفتے میں چار ناول لکھتے تھے‘ ان ناولوں کی باقاعدہ ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی‘ آپ کسی دن نادرا کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں‘ آپ کو 80‘ 90 اور 2000ءکی دہائی میں لاکھوں بچوں کے نام محمود‘ فاروق‘ جمشید اور فرزانہ ملیں گے‘ یہ نام کہاں سے آئے‘ یہ نام اشتیاق صاحب کے ناولوں سے کشید ہوئے‘ وہ جھنگ میں بیٹھ کر صرف ایک کام کرتے تھے‘ لکھتے تھے اور صرف لکھتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں کہانیاں بُننے کا ملکہ دے رکھا تھا‘ اشتیاق صاحب کی کہانی آخری سطر تک اپنا سسپنس برقرار رکھتی تھی‘ ان کے لفظوں میں مقناطیسیت تھی‘ قاری ان کا لکھا ایک فقرہ پڑھتا تھا اور اس کی آنکھیں لوہا بن جاتی تھیں اور وہ اس کے بعد ان کی تحریر سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا‘ مقبولیت اگر کوئی چیز ہوتی ہے تو اشتیاق احمد اس کی عملی تفسیر تھے اور اگر تحریر کو پڑھے جانے کے قابل بنانا ایک فن ہے تو اشتیاق احمد اس فن کے امام تھے‘ وہ لکھتے بچوں کےلئے تھے لیکن ان کے پڑھنے والوں میں آٹھ سے اسی سال تک کے ”نوجوان“ شامل تھے‘ وہ بڑے شہروں سے گھبراتے تھے‘ ان میں ایک خاص نوعیت کی جھجک اور شرمیلا پن تھا‘ وہ درویش صفت تھے‘ انہوں نے عمر کے آخری پندرہ سال مذہب کے دامن میں گزارے‘ وہ باریش ہو گئے‘ جامعة الرشید کے ساتھ منسلک ہوئے‘ روزنامہ اسلام کا بچوں کا میگزین سنبھال لیا‘ حلیہ بھی عاجز تھا اور حرکتیں بھی چنانچہ وہ قلمی کمالات اور ادبی تاریخ رقم کرنے کے باوجود سرکاری اعزازات سے محروم رہے‘ خاک سے اٹھے انسان تھے‘ خاک میں کھیل کھیل کر خاک میں مل گئے‘ سرکار نے زندگی میں ان کا احوال پوچھا اور نہ ہی سرکار کو ان کے مرنے کے بعد ان کا احساس ہوا‘ وہ تھے تو سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں تھے‘ وہ نہیں ہیں تو ورثے میں ہزاروں کہانیاں‘ 100 کتابیں اور 800 ناول چھوڑنے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہیں‘ سرکار زندگی میں ان کی طرف متوجہ ہوئی اور نہ ہی مرنے کے بعد‘ کاش ان کی بھی کوئی لابی ہوتی‘ کاش یہ بھی کسی بڑے شہر میں پلے ہوتے‘ کاش یہ بھی انگریزی ہی سیکھ لیتے اور یہ برطانیہ اور امریکا کے بچوں کےلئے کہانیاں لکھتے تو زندگی میں بھی ان کے گھر کے سامنے لوگوں کا مجمع رہتا اور موت کے بعد بھی ان کی قبر‘ ان کے گھر کے سامنے سے پھول ختم نہ ہوتے‘ یہ بس کرنالی‘ جھنگوی اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے‘ یہ ایک گم نام‘ناتمام زندگی گزار کر رخصت ہو گئے اور ان کی ہزار کتابیں بھی ان کو نامور نہ بنا سکیں‘ حکومت ان کے وجود سے بے خبر تھی اور ان کی آخری سانس تک بے خبر رہی۔
وہ منگل کی اس دوپہر کراچی ائیر پورٹ پہنچے‘ بورڈنگ کروائی‘ ظہر کی نماز ادا کی‘ قاری عبدالرحمن کا فون ریسیو کیا‘ انہیں بتایا ”فلائیٹ وقت پر ہے‘ میں انشاءاللہ عصر کی نماز لاہور میں پڑھوں گا“ اور لاﺅنج میں بیٹھ گئے‘ لاﺅنج میں کوئی شخص انہیں نہیں جانتا تھا‘ جان بھی کیسے سکتا تھا‘ وہ حلیے سے پورے مولوی لگتے تھے اور آج کے زمانے میں کوئی شخص کسی مولوی کو پیار اور دلچسپی سے نہیں دیکھتا‘ اشتیاق احمد کو بیٹھے بیٹھے بے چینی ہونے لگی‘ ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ دل گھبرانے لگا‘ سانس چڑھنے لگی اور نبض کی رفتار میں اضافہ ہونے لگا‘ وہ پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگے لیکن وہاں ان کا کوئی مددگار نہیں تھا‘ اس دوران فلائیٹ کا اعلان ہو گیا‘ وہ ہمت کر کے قطار میں کھڑے ہو گئے لیکن ان کی ٹانگوں میں جان کم ہو رہی تھی‘ وہ آگے بڑھے اور کاﺅنٹر پر کھڑی خاتون کو بتایا ”مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے پلیز ڈاکٹر کو بلا دیں“ خاتون نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی اور کام میں مصروف ہو گئی‘ وہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور لمبے لمبے سانس لینے لگے‘ ان کے سینے میں شدید درد تھا‘ وہ بری طرح کراہ رہے تھے‘ ان کو کراہتے دیکھ کر مسافر نے شور مچا دیا‘ اس کے بعد وہاں ”ڈاکٹر بلاﺅ‘ ڈاکٹر بلاﺅ“ کی آوازیں گونجنے لگیں‘ اشتیاق صاحب اس دوران تڑپنے لگے‘ مسافروں نے ان کے تڑپنے کا نظارہ دیکھنے کےلئے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا‘ ہجوم کی وجہ سے آکسیجن کم ہو گئی‘ انہوں نے لمبی ہچکی لی اور دم توڑ دیا‘ ڈاکٹر آدھ گھنٹے بعد وہاں پہنچا‘ وہ خالی ہاتھ تھا‘ اس کے پاس سٹیتھو سکوپ تک نہیں تھا‘ ڈاکٹر نے ان کی نبض ٹٹولی‘ نتھنوں پر انگلی رکھی‘ دل کو دبا کر دیکھا اور پھر مایوسی سے سر ہلا کر کہا ”مولوی صاحب مر چکے ہیں“ لوگ افسوس سے لاش کو دیکھنے لگے‘ اشتیاق صاحب کے انتقال کے آدھ گھنٹے بعد سٹریچر آیا‘ سٹریچر گندہ بھی تھا اور ٹوٹا ہوا بھی‘ لاش سیٹ سے اٹھا کر سٹریچر پر ڈال دی گئی‘ قاری عبدالرحمن پہنچے‘ لاش ان کے حوالے کر دی گئی‘ بورڈنگ پاس ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھا‘ یہ بورڈنگ پاس وزیر اعظم اور وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم کے نام ان کا آخری پیغام تھا ”خدا کےلئے ملک کے تمام ائیر پورٹس پر کلینکس بنوا دیں‘ میں آج مر گیا ہوں‘ کل آپ کی باری بھی آ سکتی ہے‘ اللہ نہ کرے آپ یوں ڈیپارچر لاﺅنج میں آخری سانس لیں“۔ ڈرائیور نے ان کے ہاتھ سے بورڈنگ پاس کھینچا‘ سٹریچر اندر رکھا‘ ایمبولینس کا دروازہ بند کیا اور محمود‘ فاروق‘ انسپکٹر جمشید اور فرزانہ جیسے کرداروں کا خالق دنیا سے رخصت ہوگیا‘ وہ زمین کا رزق زمین کے معدے میں اتر گیا‘ پیچھے صرف تاسف اور بے حسی رہ گئی‘ یہ بے حسی اور یہ تاسف آج بھی کراچی ائیرپورٹ کے لاﺅنج کی اس نشست پر پڑا ہے جس پر اشتیاق صاحب نے آخری سانس لی تھی‘ یہ تاسف اور یہ بے حسی یہاں برسوں تک بال کھولے پڑی رہے گی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک کے سب سے بڑے ادیب نے طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑا‘ اگر ائیرپورٹ پر ڈاکٹر ہوتا تو شاید وہ بچ جاتے لیکن یہ اگر اور مگر اشتیاق صاحب جیسے لوگوں کےلئے نہیں ہے‘ یہ لفظ میاں نواز شریف اور شجاعت عظیم جیسے لوگوں کےلئے بنے ہیں‘ یہ لوگ ہمیشہ قائم رہیں گے جبکہ اشتیاق صاحب جیسے لوگ بورڈنگ پاس ہاتھوں میں پکڑ کر دنیا سے اسی طرح رخصت ہوتے رہیں گے‘ رہے نام سدا بے حسی کا۔
مولوی صاحب مر چکے ہیں
24
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں