لاہور(نیوزڈیسک)وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا ہے کہ بندوق عوام کے پاس نہیں ریاست کے پاس ہونی چاہیے،اگر سیاسی اور فوجی قیادت کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی تو ناراض قبائل سے بات نہیں کر سکتا تھا،بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرنے والوں کوایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بد ترکہوں گا، بلوچی چور نہیں بلکہ چور وہ حکمران تھے جنہوں نے بلوچستان سے نکلنے والے وسائل چوری کئے ، بلوچستان کے مسائل کا حل صرف جمہوریت میں مضمر ہے ،وفاق اور عسکری قیادت کی سرپرستی کے بغیر امن کی بحالی ممکن نہیںتھی۔پنجاب یونیورسٹی اور پائنا کے اشتراک سے استحکام بلوچستان،چیلنجز اور امکانات کے موضوع پرمنعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائے گئے جس سے خوف و ہراس کا خاتمہ ہو چکا ہے، کوئٹہ میں مغرب کے بعد موت بانٹی جاتی تھی اب وہاں امن آگیا ہے۔ صوبے میں تعلیمی میدان میں بہتری آچکی ہے۔ پولیس سمیت دیگر محکموں میں میرٹ پر بھرتیاں کی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو درپیش مسائل کا حل ملک میں ہی موجود ہے جس کے لئے جمہوریت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھیں گے ،اکیسیوں صدی جمہوریت کی صدی ہے۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بلوچستان کو برسوں سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسکے حالات میں بہتری کی باتیں تو بہت کی گئیں لیکن عمل بہت ہی کم کیا گیا۔ یہ بات سچ ہے کہ بلوچستان کو وہ توجہ نہیں ملی جس کا وہ مستحق تھا۔ بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں آمریت کا بہت بڑا کردار ہے۔ اگر اکبر بگٹی کو قتل نہ کیا جاتا تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ مشرف دور میں بلوچستان کے حالات سب سے زیادہ خراب ہوئے اور اکبربگٹی کے قتل نے صوبے کو ملک سے کاٹ دیا تھا، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملکی ترقی کے لئے بہترین موقع ہے۔سابق نگراں وزیر اعلی بلوچستان غوث بخش بازوئی نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں افغانستان او ربھارت نے بہت سازشیں کی ہیں لیکن حالات اب تبدیلی کی طرف جارہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ 2013اور 2015 کے بلوچستان میں بہت زیادہ فرق ہے۔میں دعوے سے کہتا ہوںکہ بلوچستان کے کسی کونے میں اب کسی جگہ پر کوئی آرمی آپریشن نہیں ہو رہا۔ لیکن اگر وہاں کوئی دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں تو ان کے لئے جوابی کارروائیاں ضرور کرنا پڑتی ہیں اور وہ وقتی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان مذہبی فسادات کا بہت شور برپا کیا جاتا ہے لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔
معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا کہ اگر ڈاکٹر عبدالقادر بلوچ قبائلی نظام میں تبدیلی، علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے اور صوبے میں کرپشن کو لگام دینے میں کامیاب ہو گئے تو پورا پنجاب انہیں مبارکباد دے گا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستانی طلبائ وطالبات کو جو سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں یہ ماڈل صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کو اپنانا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومت کو سمندر کے پانی کو صاف کر کے بلوچستان کی زمین کو سیراب کرنا چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ اٹھاوریں ترمیم سے صوبوں کو خود مختاری اور وسائل ملے، سب بندوق چھوڑ کر سیاسی عمل میں شریک ہوں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں کئی افراد جنگوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جس کیلئے ضروری ہے ملت آدم کے تصور کو اپنایا جائے تاکہ امن کا قیام عمل میں آسکے۔
بندوق عوام نہیں ,ریاست کے پاس ہونی چاہئے ,وزیر اعلیٰ بلوچستان
23
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں