ریاض(نیوزڈیسک)سعودی عرب کی سکیورٹی ایجنسیوں اور ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بھگوڑے ورکر اور غیر قانونی تارکین وطن سخت گیر جنگجو گروپ داعش کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔سعودی عرب کی وزارتِ محنت نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔اس میں فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے84549 غیر ملکی ملازمین اپنے آجروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں اور ان میں قریباً 60 فی صد خواتین ہیں۔نایف عرب جامعہ برائے سکیورٹی سائنسز کے ڈین آف ایڈمشن اینڈ رجسٹریشن بریگیڈیئر سعد آل شہرانی کا کہنا ہے کہ ”یہ ورکر بالکل ناخواندہ ہیں یا پھر تھوڑا بہت بنیادی علم رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دہشت گردوں کا بآسانی ہدف بن سکتے ہیں اور وہ انھیں بہلا پھسلا کر ہتھیار اٹھانے اور حملوں پر اکسانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں”۔انھوں نے مزید بتایا ہے کہ ”بہت سے تارکین وطن اپنے اسپانسروں کو چھوڑ کر اس لیے بھاگتے ہیں کیونکہ انھیں اچھی ملازمت اور زیادہ تن خواہ کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ان کے ساتھی بھی انھیں اپنی موجودہ ملازمتیں چھوڑ نے پر اکساتے ہیں”۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ”اپنے آجروں کو چھوڑ کر بھاگنے والی خواتین کو دہشت گرد بآسانی لبھا سکتے ہیں۔نیز عورتیں کم سکیورٹی چیک کی وجہ سے شہروں کے درمیان آزادانہ نقل وحرکت کرسکتی ہیں۔اس لیے ہمیں اپنے نظام کی خامی کو دور کرنے کے لیے چیک پوائنٹس پر خواتین کو تعینات کرنے کی ضرورت ہے”۔سعودی وزارت داخلہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے تحقیق جرائم سلطان آل عنقری کا کہنا ہے کہ ”ان دہشت گرد تنظیموں کے مقاصد اور نوعیت کو واضح کرنا ضروری ہے۔داعش اور دوسرے دہشت گرد گروپ دراصل غیرملکی جنگجوؤں پر مشتمل ملیشیائیں ہیں جو رقوم کے لیے کام کررہے ہیں۔غیرملکی ریاستوں کی مدد سے بروئے کار ان گروپوں کا بنیادی ہدف عرب دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے”۔ان کا کہنا تھا کہ ”یہ گروپ مذہب کو سادہ لوح اور سادہ ذہن لوگوں کو لبھانے کے لیے ایک لبادے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کو مشرق وسطیٰ میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔انھوں نے دوسرے شرپسندانہ منصوبوں پر بھی عمل پیرا ہونے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہے تھے”۔انھوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ ”غیرقانونی ورکروں اور خاص طور پر خواتین کو یہ گروپ بآسانی اپنی صفوں میں بھرتی کرسکتے ہیں کیونکہ انھیں کام اور رہنے کے لیے محفوظ جگہ درکار ہوتی ہے۔ان عورتوں کو منشیات کی فروخت اور بھیک منگوانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان سے ہر وہ کام کروایا جاتا ہے جس سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے رقوم مہیا ہوسکیں”۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ داعش کے ارکان سعودی خواتین کو بھرتی نہیں کرتے ہیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ وہ حکام کو ان کی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع دے سکتی ہیں۔
84549غیر قانونی تارکین وطن سے سعودی عرب کو نیا خطرہ لاحق ‘سب کو خبردار کردیا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
لائیو پروگرام کے دوران مداخلت، احسن اقبال نے وضاحت پیش کردی
-
چینی کی نئی سرکاری قیمت مقررکردی گئی، نوٹیفکیشن جاری
-
اقرار الحسن کو تینوں بیویوں کے ساتھ ڈنر کرنا مہنگا پڑگیا
-
چینی ساختہ خالص دوا پاکستان میں فروخت کی منظوری مل گئی
-
مسلم لیگ (ن)کے اہم رہنما نےپیپلزپارٹی میں شمو لیت کا اعلان کر دیا
-
لیبیا کے آرمی چیف کا طیارہ کیوں تباہ ہوا؟ آخری پیغام سمیت اہم تفصیلات سامنے آگئیں
-
بند کرو اسے، بند کرو، وسیم بادامی کے شو کے دوران کسی نے زبردستی احسن اقبال کی ویڈیو کال بند کروا دی
-
سی سی ڈی نے 3بیٹے، داماد اور بھائی کو جعلی مقابلے میں قتل کردیا، خاتون عدالت پہنچ گئی
-
مسجد حرام کی بلند منزل سے کودنے والے شخص کوبچانے والا اہلکارزخمی
-
سعودی عرب میں پاکستانی ورکرز کی تنخواہ اور اوورٹائم سے متعلق بڑی پیش رفت
-
خیبر پختونخوا کے 4 اضلاع میں معدنیات کے نکالنے کر پابندی عائد
-
انڈونیشیا میں فحش اداکارہ کو گرفتار کرکے ملک بدر کردیا گیا؛ 10 سالہ سفری پابندی
-
برطانیہ میں شہزاد اکبر پر قاتلانہ حملہ، ناک اور جبڑا فریکچر، ہسپتال منتقل
-
سکولز اساتذہ کیلئے خوشخبری وزیراعلیٰ کا بڑا اعلان















































