اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی اصل وجہ جنید اکبر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی چیئرمین شپ سے ہٹوانا تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کو جنید اکبر کی سربراہی قبول نہیں تھی، اسی لیے حکمتِ عملی کے تحت استعفے دلوائے گئے۔سماء نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لیگی رہنما نے کہا کہ پی اے سی کی چیئرمین شپ پہلے ہی جنید اکبر کے پاس تھی، لیکن پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایک سازش کے تحت سب کمیٹیوں سے استعفے دلوائے گئے تاکہ انہیں اس منصب سے الگ کیا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت اسلام آباد کے جتنے قیدی اڈیالہ جیل میں ہیں، سب کو بھی ڈسٹرکٹ جیل میں لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کے حامی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو بنی گالہ یا زمان پارک میں رکھا جائے تاکہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔اسی پروگرام میں پی ٹی آئی کے رہنما شیرافضل مروت نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو نکات آج علی امین گنڈاپور اٹھا رہے ہیں، وہ میں طویل عرصے سے بیان کر رہا ہوں۔ ان کے مطابق اپریل 2024 سے ہی پی ٹی آئی کے اندر تقسیم شروع ہو گئی تھی۔شیرافضل مروت نے بتایا کہ علیمہ خان کو یہ خدشہ تھا کہ پارٹی پر بشریٰ بی بی کا کنٹرول قائم ہو جائے گا۔ اسی دوران انہوں نے ایک پارلیمنٹرین کو گھر مدعو کیا، جس میں وہ خود بھی شریک تھے۔ ان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی تھی کہ علیمہ خان کو سپورٹ ملے، جبکہ علی امین کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے مواقع پچھلے چھ ماہ سے نہیں مل رہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک سال میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کا مکمل اختیار علیمہ خان کے پاس رہا۔ صرف وہی نام آگے بڑھایا جاتا جس کی منظوری علیمہ خان دیتیں۔ اسی دوران جنید اکبر کو بھی اسی گروپ بندی کے ذریعے آگے لایا گیا تاکہ علی امین کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کا راستہ ہموار ہو۔شیرافضل مروت کا کہنا تھا کہ علیمہ خان اور علی امین کے درمیان پرانا اختلاف چل رہا ہے۔ ان کے بقول خیبرپختونخوا کابینہ میں مزید تبدیلیاں بھی اسی تناظر میں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ علیمہ خان نے کئی میٹنگز میں سخت رویہ اختیار کیا اور کم از کم تین بار جنید اکبر سے استعفیٰ طلب کیا۔ حتیٰ کہ جنید اکبر نے اپنا استعفیٰ بیرسٹر گوہر کے حوالے بھی کر دیا تھا۔