اسلام آباد (نیوز ڈیسک) آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ برائے سال 2013 اور 2014ءمیں انکشاف کیا گیا ہے کہ نواز شریف حکومت کے دوران ایک ہزار ارب روپے کی خرد برد، بے قاعدگیاں اور گھپلے ہوئے ہیں۔آڈیٹر جنرل کی جانب سے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں جن ”انتہائی“ نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں وفاقی مجموعی فنڈز (فیڈرل کنسالیڈیٹڈ فنڈز) سے فنانس ڈویڑن کی ایڈوائس پر 3.29.9 ارب روپے کی ”بے قاعدہ ہدایتی ادائیگیاں“ (ار ریگولر ڈائریکٹیڈ پیمنٹس) شامل ہیں۔رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ضمنی گرانٹس کا ایک بڑا حصہ یعنی 307 ارب روپے غیر منظور شدہ ہی رہے جبکہ مالی سال 2013 اور 2014ءکے دوران 187 ارب روپے کی رقم کے حسابات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق رپورٹ میں قرضوں اور پیشگی ادائیگیوں کی مد میں 107.5 ارب روپے مالیت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ وفاقی حکومت کے کھاتوں میں 5.8 ارب روپے کی نقد رقم کے توازن میں بھی فرق پایا گیا ہے اور اس کا ذکر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کیا ہے۔فائنل گرانٹ کی مد میں 87 ارب روپے کے اضافی اخراجات بھی کیے گئے ہیں جبکہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بجٹ میں رقم مختص کیے بغیر ہی 7.8 ارب روپے غیر مجاز طریقے سے خرچ کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں اثاثوں کے ناقص انتظامات (اَن ساﺅنڈ ایسیٹ مینجمنٹ) کی مد میں 11 ارب روپے، کمزور مالیاتی انتظامات (ویک فنانشل مینجمنٹ) کی مد میں 578 ارب روپے اور مالیاتی انتظامات سے جڑے کمزور داخلی ضابطوں (ویک انٹرنل کنٹرولز ریلیٹنگ ٹو فنانشل مینجمنٹ) کی مد میں 553 ارب روپے کے معاملات کا ذکر کیا گیا ہے۔آڈیٹرز کی جانب سے رپورٹ میں جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے مطابق عوامی اقدامات کیلئے قوائد، ضوابط، معقولیت کے اصولوں اور دیانت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 171.6 ارب روپے خرچ کیے گئے؛ سرکاری وسائل کا غلط استعمال، چوری، خرد برد اور فراڈ کرکے 40 کروڑ روپے خرچ کیے گئے؛ 13 ارب روپے کے ایسے معاملات بھی شامل ہیں جو اہمیت کے حامل تو ہیں لیکن مالیاتی گوشوارے میں شامل کرنے کیلئے ان کی تفصیلات موجود نہیں ہیں؛ 931 ارب روپے کے معاملات ایسے ہیں جن میں داخلی ضابطوں کے نظام میں کمزوریاں معلوم ہوتی ہیں؛ جبکہ 35.5 ارب روپے کے کیسز ریکوریز اور اضافی ادائیگیوں کے متعلق ہیں۔آڈٹ کے دوران اس بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ 306 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ شایع نہیں ہو سکی جو مجموعی ضمنی گرانٹس کا 5.2 فیصد بنتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے منظوری سے قبل تمام ضمنی گرانٹس کے حوالے سے انتظامات کرے اور ضروری اقدامات کرے، جو اس معاملے میں نہیں کیے گئے۔اس ضمن میں حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ”تمام محکموں سے کہا گیا تھا کہ وہ سپلیمنٹری گرانٹس کے متعلق معلومات فراہم کریں جو غیر شایع شدہ رہیں۔“حتمی گرانٹ کی مد میں 87 ارب روپے کے اضافی اخراجات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے تصارف کا مسودہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملازمین سے جڑے اخراجات، ریٹائرمنٹ کے فوائد، تبادلوں، سبسڈی، سول ورک، مرمتی کام کے سلسلے میں جو 87 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں وہ اصل رقم کا اضافی حصہ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ا?ڈیٹر جنرل ا?ف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بجٹ میں مختص کردہ رقم سے زیادہ اخراجات نہ ہوں۔اس کیس میں انتظامیہ کا جواب یہ ہے کہ ”تمام محکموں سے کہا گیا تھا کہ اضافی اخراجات اور بجٹ میں مختص کردہ رقم سے اضافی اخراجات کے حوالے سے جواز پیش کریں۔“آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کنٹرولر جنرل آف اکاﺅنٹس کا کام ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کھاتوں میں بجٹ کی مختص کردہ رقوم کے مطابق پری آڈٹ چیک کے بعد مجموعی فنڈز اور سرکاری کھاتوں سے ہونے والی ادائیگیوں اور رقم نکلوائے جانے کی منظوری دے۔لیکن، آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ فیڈرل کنسالیڈیٹیڈ فنڈز میں سے 329 ارب روپے کی ادائیگیاں فنانس ڈویڑن کی ہدایت پر براہِ راست کیں۔ ان ادائیگیوں کے معاملے میں آڈیٹر جنرل کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور آڈٹ سے قبل نگرانی کو بھی نظرانداز کیا گیا۔اس مخصوص کیس میں، متعلقہ سرکاری حکام نے آڈٹ ڈپارٹمنٹ کو کوئی جواب نہیں دیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے تصارف کے کھاتوں کا مسودہ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ 187 ارب روپے کے اخراجات ڈرائنگ اور ڈسبرسنگ افسران سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر اخراجات کا حساب نہ رکھا جائے تو اس سے بد انتظامی، فراڈ، خرد برد اور اخراجات کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری ہو سکتی ہے جس سے وفاقی حکومت کے کھاتوں کی صورت متاثر ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بروقت حسابات کے مقاصد کے حصول اور کھاتوں کی تیاری میں ناکامی اے جی پی آر کے کمزور داخلی ضابطوں کی عکاسی کرتی ہے۔اس کیس میں مجاز سرکاری حکام نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ مالی سال 2013 اور 2014ءبند ہو چکا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ تصارف کھاتوں کے مسودے کو بھی حتمی شکل دی جا چکی ہے، جس میں فائنل گرانٹ اور حکومتی اخراجات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس دفتر کی جانب سے مالی سال کے اختتام پر متعلقہ پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسر کو اخراجات اور ڈیفالٹرز کے متعلق آگاہ کیا گیا تھا اور ان سے بروقت حسابات کیلئے کہا گیا تھا۔ لیکن، محکموں کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔“ 107 ارب روپے کے قرضوں اور پیشگی ادائیگیوں کا ریکارڈ نہ رکھنے کے حوالے سے آڈٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سود کی ریکوری اور قرضوں کی دوبارہ ادائیگی کے حوالے سے ریکارڈ نہیں رکھا گیا، لہٰذا ان ادائیگیوں اور قرضوں کی ری سروسنگ کے معاملات مستند قرار نہیں دیئے جا سکتے۔اس کیس میں، انتظامیہ کی جانب سے اے جی پی کو بتایا گیا ہے کہ آڈٹ مشاہدات میں اکثر اوقات سرکاری ملازمین اور افراد کو دیئے جانے والے قرضوں اور پیشگی ادائیگیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس طرح کی پیشگی ادائیگیوں کی ریکوری ملازمین کی تنخواہوں میں سے ہر ماہ کٹوتی کی صورت میں کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے دیگر تنظیموں / محکموں کو ترقیاتی قرضہ کی صورت میں دیئے جانے والے قرضے کی واپسی کا کوئی طریقہ وضع نہیں ہے۔ایسے ہی قرضے حاصل کرنے والے ادارے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) کا کہنا ہے کہ ادارے کا کام حکومت کی جانب سے ہائی ویز اور پ±لوں وغیرہ کی تعمیر و ترقی ہے اور وہ اس رقم کو قرضہ نہیں سمجھتا۔ تاہم، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے حکومت کے جوابات بلا جواز ہیں لہٰذا انہیں آڈٹ پیراز سے ختم نہیں کیا جا سکتا اور اب یہ سالانہ رپورٹ کا حصہ ہیں۔