اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ آفس اور چیئرپرسن کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔سپریم کورٹ میں وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ آفس اور چیئرپرسن کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک قومی اثاثے کا تحفظ کیا حکم دیا، عدالتی حکم کے بعد چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کو عہدے سے ہٹادیا گیا، عدالتی حکم کے بعد محکمہ وائلڈ لائف کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا گیا،
وزارت داخلہ کا کام تو امن و عامہ کے معاملہ کو دیکھنا ہے، سپریم کورٹ کے حکم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ سنگین توہین عدالت کیا ہوگی؟چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ سیکرٹری کابینہ اور ریسٹورنٹ مالک لقمان علی افضل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید وینس نے بتایا کہ ذاتی تعلق کا علم نہیں،انہوںنے کہاکہ وائلڈ لائف بورڈ کی درخواست پر عدالت نے مارگلہ نیشنل پارک کے تحفظ کا فیصلہ دیا، حکومت نے پہلے چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کو عہدے سے ہٹایا پھر ممبران کو، کیا گوڈ گورننس یہ ہوتی ہے؟انہوں نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے مطابق سیکریٹری کابینہ ریسٹورنٹ مالک کے بھائی ہیں،
بھائی بھائی کی مدد نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟ ماہرین کے نام پر وزارت داخلہ سے لوگ وائلڈ لائف بورڈ میں لائے جا رہے ہیں، کامران علی افضل نے وزیراعظم سے سمری منظور کروا کر رعنا سعید کو عہدے سے ہٹایا ہے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیکرٹری کابینہ اور اٹارنی جنرل کو فوری طلب کر تے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا اور معاملے کو فوری طور پر وزیر اعظم کے نوٹس میں لانے کی ہدایت جاری کردی۔سماعت کے دوبارہ آغاز پر چیف جسٹس نے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے، اٹارنی جنرل آپ کو علم ہی نہیں کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں؟دوران سماعت سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر چیف جسٹس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا،
شہباز شریف صاحب کہیں تو سمجھ آتی ہے۔بعد ازاں سیکریٹری کابینہ کامران افضل نے بتایا کہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کو دینے کی سمری میں نے نہیں بھیجی تھی، وزیراعظم نے خود حکم جاری کیا تھا جو مجھ تک پہنچا، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ نے وزیراعظم کو کہا نہیں کہ یہ رولز کی خلاف ہے؟ وزیراعظم کا اختیار نہیں کہ کچھ بھی کر دیں، رولز بیوروکریٹس نے ہی بتانے ہوتے، وزارتِ داخلہ کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کیوں دی گئی؟ یہاں ایک سماعت میں میجر جنرل آئے تھے جو خود ہی چلے گئے تھے، اس میجر جنرل کا نام بتائیں جو بھاگ گئے تھے؟ یہ میجر جنرل پہلے تو عدالت کو فائلیں ہی نہیں دکھا رہے تھے، وہ ہم سے فائلیں چھپا رہے تھے۔انہوںنے کہاکہ یہ ملک ہے اس کا تماشہ بنا دیا گیا ہے، نیشنل پارک موسمیاتی تبدیلی سے لے کر وزارت داخلہ کو دینا کیا اچھی طرز حکمرانی ہے؟ ہم عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کا احترام کرتے ہیں، عوامی ووٹوں سے منتخب لوگ ووٹ لے کر آتے ہیں اور پھر انہی پر چڑھائی کر دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے باہر سے لے کر میرے گھر تک پائین سٹی ہاؤسنگ پروجیکٹ کے بینر لگے ہوئے ہیں، بینرز پر منصوبے کے حوالے سے سی ڈی اے اسپانسرڈ لکھا ہوا ہے،
انہوں نے اٹرانی جنرل سے مکالمہ کیا کہ بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے ٹیک اوور کر رکھا ہے، آپ کو علم ہی نہیں ہے چیزیں کیسے چل رہی ہیں؟ یہ بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور کی خدمت کر رہے ہیں، یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں بنایا تھا۔انہوںنے کہاکہ توہین عدالت کی درخواست نہ آتی تو سب کچھ خاموشی سے ہو جاتا، ملک ایسے نہیں چلے گا، ہم ریسٹورنٹ ہٹانے نکلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئی ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے سیکریٹری کابینہ سے استفسار کیا کہ وزیراعظم کل کسی کو گولی مارنے کا حکم دے تو گولی مار دیں گے؟انہوں نے ریمارکس دیے کہ محکمہ وائلڈ لائف کو موسمیاتی تبدیلی کی وزارت سے لے کر جنگلات یا کسی دوسری متعلقہ وزارت کے حوالے کرتے تو بات سمجھ بھی آتی، اٹارنی جنرل آفس لا اینڈ جسٹس کمیشن سے منسلک ہے، اگر اسے وزارت صحت سے منسلک کر دیں تو کیا یہ درست منطق ہوگی؟ میں ذاتی طور پر توہین عدالت کی کارروائی کے حق میں نہیں ہوں۔
بعد ازاں سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی نے کہا کہ وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم نے رعنا سعید کو عہدے سے ہٹانے کا کہا تھا، اس پر رومینہ سعید نے بتایا کہ میری جانب سے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی، چیف جسٹس نیدریافت کیا کہ کیا سیکریٹری کابینہ نے آپ کو ایسی ہدایات دی تھیں یا کسی دن بیگم نے ہٹانے کا کہا تھا؟سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے جواب دیا کہ جو سچ تھا وہ بتا دیا ہے، بات نہ ماننے پر کیرئیر میں زیادہ عرصہ او ایس ڈی رہا ہوں۔سپریم کورٹ نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی روک دی، وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر بھی عملدرآمد روک دیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ منگل کو کابینہ کا اجلاس ہوگا اس میں معاملہ وزیر اعظم کے علم میں لاؤں گا، اٹارنی جنرل نے وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے عمل کو روکنے کی اور چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن بھی واپس لینے کی یقین دہانی کروادی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کابینہ کے فیصلے کے بعد آپ کو چیمبر میں تفصیلات سے آگاہ کر دونگا، اچیف جسٹس نے کہا کہ ہم چیمبر میں کچھ نہیں کرتے، میری عدالت میں جو بھی ہوتا ہے کھلی عدالت میں ہوتا ہے، آپ ہمیں کھلی عدالت میں ہی تمام تفصیلات پیش کریں گے، ہم نہ چیمبر میں تفصیلات لیں گے اور نہ ہی بات سنیں گے، وزارت داخلہ اگر اتنی ہی اچھی ہے تو صحت، تعلیم اور قانون سمیت ساری وزارتیں انہیں دے دیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے پائن سٹی سے متعلق تفصیلات طلب کر تے ہوئے کیس کی سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی۔