راولپنڈی (این این آئی)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ 9 مئی سے متعلق فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے، نہ آئیگی، پاک فوج کے افسران وجوان اس ملک کی اشرافیہ نہیں،کیا تنقید کی وجہ سے کام چھوڑ دیں،بلوچستان کے ایرانی سرحد سے متصل علاقوں میں بنیادی سہولیات اور روزگار کی کمی ہے، لوگوں کا انحصار ایران سے تجارت پر ہے، اگر ایرانی سرحد مکمل بند کردیں تو مافیا کو فوج کے خلاف بات کرنے کا موقع ملے گا، بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی نام نہاد قیادت دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ مافیا کی ایک پراکسی ہے، افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیز پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے مکمل طور پر فوکسڈ ہیں،
حکوکومت کی جانب سے 2 دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے ، ٹی ٹی پی کو خوارج الفتنہ کے نام سے نوٹیفائی کردیا گیا ہے، دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی،افواج پاکستان حق خود ارادیت کی منصفانہ جد وجہد میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑی ہے،خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ناگزیر ہے۔پیر کو یہاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوم استحصال کے موقع پر میں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ افواج پاکستان حق خود ارادیت کی منصفانہ جد وجہد میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ی یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی یہ سب بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے دن افواج پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ان شہدا کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ظلم اور غیر قانونی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی منصفانہ جد وجہد میں کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت پاکستان ان کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ مختلف امور میں قومی اور داخلہ سلامتی سے جڑے مسائل، دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے مؤثر اقدامات اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے گاہے بگاہے آگاہی بے حد ضروری ہے۔
انہوںنے کہاکہ سال 2024 کے پہلے 7 ماہ میں کاؤنٹر ٹیررزم کے ان آپریشن کے دوران 139 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہات نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیز پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے مکمل طور پر فوکسڈ ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی، خواتین و حضرات، کاؤنٹر ٹیررزم اور فوجی آپریشنز کے علاوہ جیسا کے پہلے کہا کہ افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی عوام کے لیے سماجی اکنامک پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، ان میں بہت سے فلاحی کام ہیں، جیسا کہ تعلیم، صحت، فلاح و بہبود، معاشی خود انحصاری اور دیگر شعبہ جات کے پروجیکٹس، جو فوج، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے مکمل کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ افواج پاکستان کی خصوصی توجہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر ہے، اس کے علاوہ فلاحی منصوبے آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہیں یا پایہ تکمیل تک پہنچائے جا چکے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی، خواتین و حضرات، کاؤنٹر ٹیررزم اور فوجی آپریشنز کے علاوہ جیسا کے پہلے کہا کہ افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی عوام کیلئے سماجی اکنامک پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، ان میں بہت سے فلاحی کام ہیں، جیسا کہ تعلیم، صحت، فلاح و بہبود، معاشی خود انحصاری اور دیگر شعبہ جات کے پروجیکٹس، جو فوج، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے مکمل کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ افواج پاکستان کی خصوصی توجہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر ہے، اس کے علاوہ فلاحی منصوبے آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہیں یا پایہ تکمیل تک پہنچائے جا چکے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سب سے پہلے تعلیم کے شعبے کی بات کرتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس حقیقت کے پیش نظر افواج پاکستان کی جانب سے پاکستان کے طول و عرض بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی وسائل کی فراہمی کے لیے جامع اقدامات کیے گئے،
اور اس ضمن میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، خیبرپختونخوا اور خاص طور پر نئے ضم شدہ اضلاع میں 94 اسکول 12 کیڈٹ کالجز، 10 ٹیکینکل اور ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تعلیمی اداروں سے تقریباً 80 ہزار بچے تعلیم کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں، 2 منصوبے جن کا میں خصوصی طور پر ذکر کروں گا، پہلا منصوبہ چیف آف آرمی اسٹاف کی یوتھ ایمپلائمنٹ اسکیم ہے، جس کے تحت ان اضلاع میں 1500 مقامی بچوں بشمول ملٹری کالجز میں مفت تعلیم دی جاری ہے، دوسرا منصوبہ علم ٹولو دا پارا یعنی تعلیم سب کے لیے، اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوا 7 لاکھ 46 ہزار 768 طالب علموں کو انرول کیا گیا ہے، جن میں 94 ہزار سے زائد کا تعلق نئے ضم شدہ سے ہے، اس منصوبے کے تحت تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو معاشرے کا کامیاب شہری بنانے کے لیے ڈیجیٹل اور ٹیکینکل اسکلز بھی سکھائی جا رہی ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اسی طرح بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو 60 ہزار طالب علموں کو 160 اسکول اور کالجز، 12 کیڈٹ کالجز، یونیورسٹیز اور 3 ٹیکینکل انسٹی ٹیوشن کا قیام وفاقی اور صوبائی کے تعاون سے عمل میں لایا گیا ہے،
بلوچستان کے ان طلبہ کے لیے ایک جامع اسکالرشپ کا شروع کیا گیا ہے، جس میں ان کو پاکستان ا?رمی کی جانب سے تعلیم کے ساتھ تمام سہولیات اور اخراجات بھی فراہم کیے جار رہے ہیں، اب تک اس پروگرام کے تحت 8 ہزار سے زائد بلوچستان کے طلبہ مستفید ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان میں ایف سی اور پاک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے 92 اسکول چلائے جا رہے ہیں جن میں 19 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں، یہ بھی بتاتا چلوں کہ افواج پاکستان کے تعاون سے بلوچستان کے 253 طالب علموں کو متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم بھی دی گئی ہے۔انہوںنے کہاکہ خواتین و حضرات، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی افواج پاکستان کی جانب سے 171 اسکول اور 2 کیڈٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں علاقے کے 50 ہزار سے زائد طالب علم مستفید ہو رہے ہیں، اسی طرح سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں بھی ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور 100 سے زائد سرکاری اسکولوں کی اپ گریڈیشن بھی کی گئی ہے۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا کہ اب آتے ہیں صحت کے شعبے میں افواج پاکستان کے رول پر، صحت کے شعبے میں دیکھا جائے تو پاک فوج نے پاکستان کے طول و عرض میں صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں، پاکستان کے مختلف اضلاع میں پاکستان آرمی کی جانب سے میڈیکل کیمپس میں ایک لاکھ 15 ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا گیا،
میڈیکل کیمپس کا فوکس خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے، جہاں سیکڑوں اور ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسی طرح صوبہ بلوچستان میں 2024 میں 87 میڈیکل کیمپس لگائے گئے، ملک بھر میں پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان کی جانب سے حکومت پاکستان کی پولیو مہم میں محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کے لیے 66 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار پولیو ٹیموں کے ساتھ پورے پاکستان میں تعینات کیے گئے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ انفرااسٹرکچر کے ضمن میں پاک فوج نے بہت اہم اقدامات کیے ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر یہاں کروں گا، خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 3293 منصوبے مکمل کیے گئے، جن میں میر علی ہسپتال، لیکسن مارکیٹ ڈگری کالج میرانشاہ، گرلز ہائی اسکول وانا، روڈ وانا بائی پاس کی تعمیر اہم ہیں، اس کے علاوہ مقامی افراد کے لیے ایگریکلچر پارک وانا اور جنڈولہ مارکیٹ کے علاوہ کچھ اہم پروجیکٹس جو افوج پاکستان اور اس کے فلاحی ادارے چلا رہے ہیں، شیوا گیس فیلڈ اسپن وام ، ایک 150 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بھی جو شیوا گیس فیلڈ کو مین گیس اسٹیشن سے ملائے گی۔انہوں نے کہا کہ محمد خیل کاپر مائن پروجیکٹ، زرملان میں ایک ہزار ایک ایکٹر زمین کو قابل کاشت کیا جا چکا ہے،
اس کے علاوہ بہت سے منصوبوں پر مقامی اور غیر مقامی کمپنیاں ان نئے ضم شدہ اضلاع میں کام کررہی ہیں، ان پروجیکٹس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار میسر ہو رہا ہے بلکہ اس کا ایک بہت اچھا حصہ عوامی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ اگر بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی کی بات کی جائے تو تعلیم، صحت اور صاف پانی کی فراہمی افواج پاکستان کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں 912 منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جاچکا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بلوچستان میں پاک فوج کے تعاون سے سڑکوں اور پلوں کے حوالے سے اہم منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں، آرمی چیف کی طرف سے گوادر کے عوام کے لیے تعلیم، صحت، پانی اور روزگار کی فراہمی کے لیے 104 مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور کچھ پر کام مکمل ہو چکا ہے، گوادر میں صاف پینے کے پانی کے لیے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ اور اس کے ساتھ ساتھ پاک چائنا فینڈشپ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پنجگور میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ڈیٹس پروسیسنگ پلانٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس منصوبے سے مقامی لوگوں کو روزگار کی سہولت میسر آ رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہاں میں خصوصی طور پر چمن ماسٹر پلان کا ذکر بھی کروں گا، جس کے تحت 94 ایکڑ زمین پر مختلف تعمیراتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن کا مقصد چمن کے عوام کو متبادل روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان گرین انیشیٹو کے حوالے سے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 8 لاکھ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے، اس میں سے ایک لاکھ ایکٹر پر کاشت شروع بھی کی جا چکی ہے، اسے رواں سال دسمبر تک ڈھائی لاکھ ایکٹر تک بڑھا دیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم کو درآمد کیا جا رہا ہے اور مزید سسٹم ہیوی انڈسٹریز ٹیکسا میں تیار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لائیو اسٹاک کی ترقی کے لیے ملک کے 24 اضلاع میں پروگرام شروع کیا گیا ہے، 16 ایگری کلچر ریسرچ سینٹرز بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں، ان منصوبوں سے نہ صرف روزگار مل رہا ہے بلکہ یہ فوڈ سیکیورٹی اور زر مبادلہ کی جانب اہم قدم بھی ہے۔انہوںنے کہاکہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ملک کی نوجوان نسل کی فلاح و بہبود یقینی بنانے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی حب کا قیام اہم منصوبہ ہے، اس سلسلے میں ڈی ایچ اے کوئٹہ، پشاور ملتان اور اسلام آباد میں 3 ہزار سے زائد نوجوانوں کو ان آئی حب میں رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے، ملک کے دیگر علاقوں میں بھی یہ منصوبے جلد شروع کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علاوہ افواج پاکستان قومی اہمیت کے مختلف منصوبوں پر جن کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے، انہیں سیکیورٹی بھی فراہم کر رہی ہے، افواج پاکستان اور سول آرمز فورسز کے ہزاروں اہلکار پورے ملک میں اہم منصوبوں کی سکیوورٹی پر تعینات ہیں، اس کے علاوہ سی پیک کے منصوبوں پر بھی اہلکار تعینات ہیں۔انہوںنے کہاکہ اس کے علاوہ افواج پاکستان ٹیکس کی مد میں بھی 23 ارب روپے جمع کرا رہی ہے، 2022، 23 میں بھی ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں تقریبا ایک سو ارب روپے جمع کرائے جب کہ پاکستان فوج کے رفاعی اور ذیلی اداروں نے مجموعی طور پر تقریبا 260 ارب روپے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں قومی خزانے جمع کرائے، اس طرح سے پاک فوج اور اس کے زیر انتظام اداروں نے 2022، 23 میں مجموعی طور پر 360 ارب روپے قومی خزانے میں ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کرائے۔ڈی جی آئی ایس پی ار نے کہا کہ اس کے علاوہ لاکھوں خاندان ان اداروں کی وجہ سے ملازمت اور روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، افسران اور جونوانوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، شہدا ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، اس سلسلے میں شہدا کے خاندانوں، آپریشنز میں زخمی ہونے والے غازیوں کے لیے جامع پیکجز مختص ہیں، اس وقت افواج پاکستان 2 لاکھ 40 ہزار افراد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ایس آئی ایف سی کے ذریعے فوج کے بڑھتے کردار پر تنقید سے متعلق سوال پر انہوںنے کہاکہ پاک فوج قومی فوج ہے، اس کے جوان و افسران ملک کے ہر حصے، مذہب و مسلک سے آتے ہیں، یہ ملک کے متوسط اور غریب خاندانوں سے آتے ہیں، پاک فوج کے افسر اور جوان ملک کے اشرافیہ نہیں ہیں، پاک فوج متوسط اور طبقوں کا گلدستہ ہے، یہ میرٹ کی بنیاد پر بنے سسٹم کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے ہر افسر و جوان کی ترجیح پاکستان ہے، اسی لیے وہ اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنی ہر وقت ملک پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟انہوں نے کہا کہ ہر سلسلہ 1947 سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہیگااس کا تمام تر سہرا پاکستان کی بہادر ماؤں کو جاتا ہے، یہ آپ کی فوج کسی خاص ایک سیاسی سوچ، ایک زاویے، ایک گروپ، ایک پارٹی، ایک مذہب اور ایک مسلک کو لے کر نہیں چل رہی، یہ پاکستان اور اس کی ترقی کو لے کر چل رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ جو ادارہ، افسر، جوان اپنی جوان دینے کو تیار ہیتو اگر کوئی حکومت قانون کے مطابق کوئی کام دے، جس میں پاکستان کا فائدہ ہو، تو وہ کیوں پیچھے ہٹے گی، اس کے پاس کیا منطق ہے کہ وہ پیچھے ہٹے، یہ کام تو ہم کرتے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت ملک میں معاشی سیکیورٹی چیلجز درپیش ہے، اگر یہ واقعتا ایک چیلنج ہے اور اس میں حکومت فوج کو کوئی کام تفویض کرتی ہے تو اس میں پاک فوج بطور قومی فوج کردار ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔اور یہ سوال ہے کہ کیا پاکستان دنیا کی واحد آرمی ہے جو یہ کام کررہی ہے، اگر آپ نگاہ ڈالیں تو پوری دنیا میں بیشتر ممالک میں ان کی افواج جو معاشی اور معاشرتی پراجیکٹس ہوتے ہیں ان میں اپنی حکومت اور اپنی عوام کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے اس کام کو قدر اور ستائش سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ، اپنے مضمون نیرو انٹرسٹ کے لئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے یہاں پر ایک مافیا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہاں پر مافیا ہے وہ نہیں چاہتا پاکستان کی عوام ترقی کرے اور اس کی فلاح و بہبود ہو۔ وہ مافیا یہ سوال تو نہیں کرتا جس اشرافیہ کی ذمہ داری ہے تعلیم کو یقینی بنائے ، صحت کو روزگار کو کاروبار کو یقینی بنائے وہ ان پر سوال نہیں کریں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ یہ سوال نہیں کرے گا ان چیزوں کی وجہ کیا پرابلمز ہیں کیا مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہورہی اور کس طریقے سے ہم مسائل کو حل کرسکتے ہیں اس کو تکلیف اس بات پر ہے کہ فوج کیوں عوام کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے اگے بڑھ کر کام کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے۔
میں پہلے بھی اس فورم پر کہہ چکا ہوں اور میں آج دوبارہ یہی بات کروں گا جب آپ کے گھر میں اگ لگی ہو تو سوال یہ نہیں کرتے کے تم اگ بجھانے کیوں آئے ہو۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے۔میں پہلے بھی اس فورم پر کہہ چکا ہوں اور میں آج دوبارہ یہی بات کروں گا جب آپ کے گھر میں اگ لگی ہو تو سوال یہ نہیں کرتے کے تم اگ بجھانے کیوں آئے ہو، وہ یہ سوال ضرور کرے جس نے یہ اگ لگائی ہے یا جس کو اس اگ لگانے کا فائدہ ہے ضروری یہ بات ہے کہ سوال کرنے کو کرنے والے کو اور اس اگ کو لگانے والے کو پہنچانیں۔انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تباہی میں اس کی کامیابی ہے اور ہمیں یہ چاہیے ہمیں اسے پہنچانیں ، اس مافیا کو پہچانیے اور اس کو یک زبان ہو کر ایک جواب ددیں کہ تم جو کچھ کرلو ، جو ہم کر رہے ہیں، کوئی چیز بھی ہمیں وہ کرنے سے روک نہ روک سکتی، نہ روکے گی۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا دیکھیں ایرانی تیل کیوں آتا ہے ، یہ ایک کمپلیکس مسئلہ ہے ، اس کو پہلے ہم تیل کے مسئلے کے حوالے سے بات کرتے ہیں، یہ جو بلوچستان کے علاقے ہیں جو متصل ہیں اس کے ساتھ ایران کے ساتھ، سہولیات کے اعتبار سے وہ اس طرح نہیں ہیں جیسے ہم یہاں شہر میں پنڈی یا اسلام آباد یا لاہور میں، وہاں پر آپ نے تیل کی بات کی تو وہاں پر تیل ایسے نہیں کہ آپ گاڑی چلائیں گے اور پیٹرول اسٹیشن پر چلے جائیں گے اور پیٹرول ڈالیں گے۔
انہوںنے کہاکہ آپ نے اگر گروسی لینی ہے تو آپ کسی مارکیٹ میں جائیں گے وہاں سپر مارکیٹ سے کارٹ بھریں گے اور لے کر آجائیں گے، وہاں پر جو بنیادی سہولیات ہیں ان کی کمی ہے، چاہے وہ تیل ہو یا صاف پانی ہو یا تعلیم ہو ، صحت ہو، روزگار کے مواقع ہوں تو جب ایک اور یہ بڑے وسیع علاقے ہیں اور یہ صرف آج سے نہیں ہے اور یہ کئی دہائیوں اور عرصے سے ہے۔انہوں نے کہا کہ تو ان کے پاس معاشی سسٹم میں ان کی آزادی وہ سرحدی تجارت ہے کیونکہ وہاں اگر ان وسیع علاقوں میں اگر آپ جو ضروریات زندگی ہے زندہ رہنے کے لئے وہ نہیں دیتے اور وہ فراہم نہیں کرتے اور آپ ادھر آجائیں اور فوج کو کہیں کہ آپ ادھر آجائیں یہ بارڈر سیل کردیں اور بالکل بند کردیں اور کوئی چیز نہیں آنے دیں تو پھر تو یہ مافیا مزید خوش ہوگا کہ اچھا جی یہ مقامی لوگ اور فوج ہم نے آمنے سامنے کھڑی کردی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے اور اس پر کام بھی ہورہا ہے کہ بتدریج وہاں پر متبادل جو روزگار ہے، سہولیات ہے وہ فراہم کی جائیں۔
انہوںنے کہاکہ آپ نے دیکھا ہوگا میں نے اپنی بریفنگ میں بھی بات کی چمن میں جب یہ ون ڈاکومنٹ رجیم کا انعقاد ہو تو حکومت نے اور فوج کے تعاون کے ساتھ حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر متبادل مارکیٹ بنائی، وہاں دکانیں بنائی جارہی ہیں اور سہولیات فراہم کی جارہی ہیں بجلی کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔یہ بھی آپ کو پتہ ہونا چاہیے وہاں سے جو چیزیں اتی ہیں جو تیل آتا ہے اس کے پرمٹ فوج یا آرمی یا ایف سی تو نہیں جاری کرتی۔ ارمی اور ایف سی تو غیر قانونی طور پر سامان کی تجارت کو ختم کرنے کے خلاف مستقل کوشش کررہی ہے،اگر اپ نمبرز کو دیکھیں تو یہ کہاں پندرہ سو ملین یومیہ سے کم ہوکر پانچ چھ ملین رہ گیا ہے۔ یہ فوج کی ایف سی کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی، انٹیلی جنس کے لیویز کے ان سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی ہوا ہے تو یہ پرابلم جس پر ایف سی ، انٹیلی جنس ، قانون ناافذ کرنے والے ادارے تمام ادارے لگے ہیں لیکن اس کو مستحکم ، لانگ ٹرم ، پیپل سینٹرک حل چاہیے۔