لاہور(نیوزڈیسک)دنیابھرکے بعض دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مختلف ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں روز افزوں زبردست اضافہ ہوتا جارہاہے جس کے باعث ڈپریشن کامرض ٹاپ ٹین بیماریوں میں چوتھے نمبر پر آگیاہے جبکہ معاشی ، معاشرتی ، گھریلومسائل دماغی امراض میں خطرناک حد تک اضافہ کاموجب بن رہے ہیں تاہم 35 فیصد لوگ کسی نہ کسی چھوٹے یا بڑے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود علاج معالجہ کی جانب توجہ نہیں دے رہے جس کے باعث انہیں مختلف پیچیدگیوں کا سامنا کرناپڑرہاہے ۔ملک کے ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر ذوالفقار علی نے اے پی پی کو بتا یا کہ ایسی امراض میں دماغی کام متاثر ہو جاتا ہے اور انسان کی سوچ اور اس کے رویے میں ایسی تبدیلیاں آجاتی ہیں کہ اس کی سماجی زندگی اور کام کاج متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ انہوںنے بتایاکہ 35 فیصد لوگ ڈپریشن، شیزوفرینیا، مینیا وغیرہ کے چھوٹے یا بڑے مرض میں کسی نہ کسی طرح مبتلا ہونے کے باعث اس کی تنگی برداشت کرتے رہتے ہیں مگر ماہرین نفسیات سے رابطہ نہیں کرتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اب تک ذہنی امراض کو بطور مرض قبول نہیں کر رہا جس سے دن بدن ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے ۔