اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ ادارے عدالتوں کو نہیں مانتے اس لیے جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں،ریاستی اداروں کو قانون کی حکمرانی پر پورا یقین ہونا چاہیے، اعلی ترین دفتر کو بیانِ حلفی دینا ہو گا کہ جبری گمشدگیاں نہیں ہوں گی۔ بدھ کو دورانِ سماعت اٹارنی جنرل، وزارتِ داخلہ و دفاع اور پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا ہے کہ 9 لاپتہ طلبا کو بازیاب کرا لیا گیا ہے جبکہ 15 اب تک لاپتہ ہیں، جنہیں بازیاب کرانے کے لیے تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریاستی اداروں کو قانون کی حکمرانی پر پورا یقین ہونا چاہیے، اعلی ترین دفتر کو بیانِ حلفی دینا ہو گا کہ جبری گمشدگیاں نہیں ہوں گی، اسٹیٹ کے ادارے عدالتوں کو نہیں مانتے اس لیے جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں، ایجنسیوں کے لوگوں کو پراسیکیوٹ کرنا ہو گا، جس دن یہ سائیکل الٹی چلا دی اس دن جبری گمشدگیاں نہیں ہوں گی، ریاست کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ریاست نے تو سب کو ڈیل کرنا ہوتا ہے، مسنگ پرسنز کا تصور صرف ہمارے ملک میں ہے، دیگر ممالک میں ایسا کوئی تصور نہیں، ٹرائل تین تین سال چلتا ہے، ریاست اداروں کو پروٹیکٹ کرتی ہے، وہ سب کچھ کر سکتی ہے، اگر تھانے پر چھاپہ ماریں اور کوئی بندہ بازیاب ہو تو پولیس والے کی تو نوکری چلی جاتی ہے، میرے سامنے کوئی مسنگ بلوچ بازیابی کے بعد نہیں آیا جس سے میں سوال کر سکوں، جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک بھی ہیں یا نہیں؟ نجانے بازیاب ہونے والوں کی ہیلتھ کنڈیشن کیا ہو گی؟ بلوچستان سے اٹھ کر لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں۔
عدالت نے درخواست گزار ایمان مزاری سے سوال کیا کہ کیا بلوچ مظاہرین کا کیمپ ابھی بھی جاری ہے؟وکیل ایمان مزاری نے جواب دیا کہ جی بلوچ مظاہرین ابھی بھی یہاں کیمپوں میں موجود ہیں۔عدالت نے کہا کہ پچھلے دنوں ہم نے آرڈر کیا تھا کہ آئین و قانون کے مطابق ان کو احتجاج کرنے دیا جائے۔وکیل ایمان مزاری نے جواب دیا کہ ان پر پہلے واٹر کینن استعمال کی گئی، اب ان کو دوبارہ ہراساں کیا گیا ہے۔عدالت نے ایس ایچ او سے سوال کیا کہ آپ نے چیک کیا جو لوگ آئے ہیں احتجاج کر رہے ہیں؟وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ دو احتجاج ہو رہے ہیں، ایک مسنگ پرسنز کا، دوسرا شہدا کے ورثا کا۔جسٹس محسن اخترکیانی نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ایک جگہ پر دو احتجاج ہو رہے ہیں؟عدالت نے ہدایت کی کہ ان شہدا کے ورثا سے بھی ملیں، کہیں وہ ایک دوسرے کو نہ نقصان پہنچائیں، اٹارنی جنرل صاحب! آپ اس معاملے کو دیکھیں اور دونوں احتجاج کرنے والوں سے ملیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے سوال کیا کہ کیا واٹر کینن اور لاٹھی چارج میڈیا کے سامنے ہوا؟درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ جی یہ پوری دنیا کے سامنے ہوا، میڈیا نے دکھایا، اب اچانک وہاں پر کوئی اور کیمپس بھی لگ گئے ہیں، مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے لوگوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں۔ایس ایچ او نے بتایا کہ جو دوسرے کیمپ والے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے شہدا کے لیے آئے ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ نہ ہو کہ یہ معاملہ ریاست کے لیے مسئلہ بن جائے۔ایس ایچ او نے بتایا کہ ہم نے دونوں دھرنوں کو سیکیورٹی دی ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا ایسے ہی چیزوں کو ہینڈل کیا جائے گا؟ ایسا نہ ہو کہ پھر سیکیورٹی کا مسئلہ بن جائے، یہ کہیں ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں، ریاست یقینی بنائے کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے استدعا کی کہ ہمیں کچھ وقت دے دیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پاکستان کی عالمی سطح پر بہت بدنامی ہو رہی ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے استدعا کی کہ الیکشن کے بعد کی تاریخ رکھ لیں۔اس موقع پر ایک بلوچ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ فواد حسن فواد ہمارے گھر آئے تھے۔عدالت نے کہا کہ جو افراد لاپتہ ہیں چاہے 10 سال سے زائد ہو گیا انہیں بتانا پڑے گا کہ وہ لاپتہ افراد زندہ ہیں یا مر گئے۔بلوچ خاتون نے کہا کہ آپ ہمیں امید دے دیں ورنہ شاید ہم کبھی مڑ کر واپس نہ آئیں۔عدالت نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن پر الزام ہے انہی سے ہم نے کہنا ہے۔
بلوچ خاتون نے بتایا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے پیاروں کا بتائیں گے تو آپ شور نہیں مچائیں گے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں۔عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ میں کب بیانِ حلفی جمع کروائیں گے؟اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایک ہفتے میں جمع کروا دیں گے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ دو مہینوں کا وقت مانگ رہے ہیں، یہ بہت زیادہ وقت ہے، انہیں فروری کی تاریخ دے دیتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کر دی۔