اسلام آباد(نیوز ڈیسک) تلخ حقیقت یہ ہے کہ 3کروڑ60لاکھ ملین ایکٹر فٹ پانی جس کی مالیت 21کھرب روپے ہے ، گزشتہ 6ماہ میں ضائع کردیا گیا ، حالانکہ ربی کے سیزن میں سندھ اور پنجاب کو پانی کی 14فیصد کمی کا سامنا ہے۔ایک سینئر افسر نے قومی اخبار کو بتایاکہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)کا بدھ کو اجلاس ہوا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ 6 ماہ میں 21ارب روپے مالیت کے پانی کا کوٹری بیراج سے اخراج کردیا گیا اور ارسا کے تمام ارکان اس بات پر پریشان ہیں کہ ملک میں جنگی بنیادوں پر ڈیم بنانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے تاکہ مستقبل میں ممکنہ طور پر قحط اور بھوک و افلاس سے بچا جاسکے۔جنگ رپورٹر خالد مصطفی کے مطابق ایک جانب تو ملک میں سیلابی ریلے قابو سے باہر ہوگئے اور اس پانی کو ذخیرہ نہیں کیا گیا اور اس کا اخراج کردیا گیا، دوسری جانب افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اجلاس کے دوران بلوچستان نے گزشتہ 6 ماہ میں سندھ پر اس کے حصے کا 15لاکھ ایکٹر فٹ پانی چوری کرنے کا الزام عائد کیا، جس کے باعث بلوچستان کے کسانوں کوبہت برے حالات کاسامنا کرنا پڑا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ پنجاب اور سندھ کو ربی سیزن میں 14فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہوگا۔ربی سیزن کیلئے سندھ کو 12.90ملین ایکٹر فٹ پانی دینے، پنجاب کو 17.08ملین ایکٹر فٹ، خیبرپختونخوا کو 7لاکھ ایکٹر فٹ اور بلوچستان کو 1.2ملین ایکٹر فٹ پانی کا حصہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس افسر نے بتایاکہ ملک میں ربی سیزن کے دوران تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج میں 1 کروڑ ایکٹر فٹ پانی کا ذخیرہ ہےجبکہ سسٹم لاسز کا حجم 3ملین ایکٹر فٹ ہے۔ تاہم ارسا بیش قیمت پانی کے ضیاع پر پریشان ہے اور اس نے حکومت سے فوری طور پر دیامیربھاشا،منڈا اور اخوری ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ ارسا نے 25فروری 2015کو سیکریٹری وزارت پانی و بجلی کو پانی کی عدم دستیابی کے موضوع سے ایک خط لکھا تھا، جس میں نقارہ وقت بجاتے ہوئے بہترین عوامی مفاد میں 5سال کیلئے ترقیاتی بجٹ کو منجمد کرکے اس کے وسائل کو بڑے ڈیموں کی تعمیر کیلئے ترجیحی بنیادوں پر مختص کرنے کیلئے کہا گیا۔ اس خط پر چیئرمین ارسا اور اس کے رکن خیبرپختونخوا کے دستخط تھے، جس کی ایک نقل دی نیوز کے پاس بھی موجود ہے۔ خط میں ملک میں کم ازکم 22ملین ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے مناسب مقامات پرجنگی بنیادوں پر ڈیمز تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر سے ملک میں پانی کی کمی دور کرنے ، مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی)میں اضافے اور سیلابوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ، اس کے ساتھ ساتھ موجودہ توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی پانی دستیاب ہوگا۔ کنال ہیڈز پر پانی کی دستیابی 97ملین ایکٹر فٹ تک کم ہوگئی ہے جوکہ 117ملین ایکٹر فٹ مختص کیے جانے کے مقابلے میں 105ملین ایکٹر فٹ تھی۔ ارسا نے خدشے کا اظہار کیا ہےکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیموں کو نقصان پہنچنے اور دیگرعوامل کے باعث پانی کی کمی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ارساکے مطابق ملک میں پانی کی او سط دستیابی کی سطح 145ملین ایکٹر فٹ ہے ، جبکہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 14.10ملین ایکٹر فٹ ہے ، جس سے مراد ہےکہ کل دستیاب پانی کے مقابلے میں ملک کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد محض 9.7فیصد ہے۔ تاہم دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط استعداد40فیصد ہے۔ ارساکا خط میں کہنا تھاکہ 16مارچ1991کو صوبوں نے پانی کی تقسیم کی معاہدے پر دستخط کیے ، جس میں واضح طور پر مستقبل میں ذرعی شعبے کی ترقی کیلئے دریائے سندھ سمیت دیگر دریاو?ں کے مناسب مقامات پر ڈیموں کی تعمیر اجازت دی گئی تھی۔ ارسا کے خط کے باوجود وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور وزارت پانی و بجلی پانی کی خطرناک حد تک کمی سے بچنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی کرنے کو تیار نہیں۔ عالمی بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک پہلے ہی پاکستان کو پانی کے ذخیرے میں کمی کے حوالےسے دنیا کا بدترین ملک قرار دے چکے ہیں، جبکہ پاکستان میں ا?ئندہ 5برسوں میں پانی کی کمی میں مزید اضافہ ہوگاکیونکہ زراعت ، صنعت اور عوام کے استعمال کیلئے پانی کی کمی ہوگی۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2010میں پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 5000ہزار کیوبک میٹر سے کم ہوکر1000ہزار کیوبک میٹر ہوگئی تھی جبکہ 2020تک پانی کی دستیابی کی سطح 800کیوبک میٹر تک کم ہوجائیگی۔