اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نیپرا کی سالانہ رپورٹ برائے 2014 اور 15ءنے سرکاری پاور سیکٹر کے منتظمین کو مشتعل کر دیا ہے اور ان کی رائے ہے کہ رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نیپرا کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کا علم ہی نہیں۔ سرکاری پاور سیکٹر کے ذرائع نیپرا کی رپورٹ سے پریشان نظرآتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ نیپرا نے تمام تر ملبہ دوسروں پر ڈال دیا ہے حالانکہ ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت الیکٹرک پاور سروسز یعنی کہ ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ برائے 1997ءکی شقوں پر عملدرآمد اور ان کی نگرانی کی تمام تر ذمہ داری نیپرا کی ہے۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ نیپرا کا قیام اسی قانون کے تحت عمل میں آیا ہے اور لہٰذا پاکستان کے پاور سیکٹر کے جو بھی حالات ہیں ان کے حل کی ذمہ داری نیپرا پر عائد ہوتی ہے اور دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنے کی وجہ بہت ہی سادہ سی ہے اور وہ یہ ہے کہ نیپرا کے چیئرمین اور اس کے ممبران نا اہل ہیں جس کی وجہ سے انہیں پاور سیکٹر کی حرکیات کی سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے۔ ان ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ نیپرا نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تمام تر توجہ صارفین کے فائدے کیلئے پاور سیکٹر میں بہتری کی بجائے ملازمین کی سرگرمیوں میں بہتری، اور جمنازیم اور کیفیٹیریا کے قیام پر دی ہے۔ اسی طرح کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) کے معاملے میں نیپرا یہ بات بھول گیا کہ کے الیکٹرک کی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنے کی نگرانی نیپرا کی ہے اور جب بھی نیپرا نے کے الیکٹرک کے مختلف برسوں کے ٹیرف کا جائزہ لیا تو وہ اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں ہر مرتبہ ناکام رہا۔ نیپرا نے کراچی الیکٹرک کو ہر مرتبہ اچھی کارکردگی کی رپورٹس جاری کیں، حالانکہ جب بھی ضرورت ہوتی تھی اس وقت کراچی الیکٹرک کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے جس کی مثال رواں سال کا ماہِ رمضان بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق، رپورٹ میں نیپرا نے کراچی الیکٹرک کو دوسرا نمبر دیا ہے حالانکہ بجلی کی 6 تقسیم کار کمپنیوں کے مقابلے میں کراچی الیکٹرک کے لائن لاسز زیادہ ہیں اور ساتھ ہی صارفین کی سب سے زیادہ شکایات کے الیکٹرک کے خلاف ہیں۔ سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ رواں سال ماہِ رمضان میں شدید گرمی کے نتیجے میں ہونے والی 800 ہلاکتوں کے باوجود نیپرا کے ہاتھ کے الیکٹرک کو دوسرا نمبر دینے کے معاملے میں نہ کانپے، معاشرے کے کچھ حلقوں کی جانب سے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری کے الیکٹرک پر بھی عائد کی گئی تھی۔ ان ذرائع نے سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ندیم الحق کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست کا بھی حوالہ دیا؛ اس پٹیشن میں نیپرا کے چیئرمین اور اتھارٹی کے ممبران کی تقرری کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ برائے 1997ءکی شق (3) 3 کے تحت ”ادارے کا چیئرمین ایک پیشہ ور شخص ہونا چاہئے جس کی شہرت اور ساکھ اچھی ہو، جس کے پاس قانون، بزنس، انجینئرنگ، فنانس، اکاﺅنٹنگ، معیشت یا پھر پاور انڈسٹری کے شعبے میں 20 سال کا تجربہ ہو۔“ تاہم، سالانہ رپورٹ برائے 2014 اور 15ءکے مطابق چیئرمین ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہے جس کے پاس بظاہر پاور انڈسٹری کا 13 سال کا تجربہ ہے، یہ تجربہ نیپرا کے ایک رکن کے مقابلے میں نہ صرف ایک سال کم ہے بلکہ قانون کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ اسی طرح، ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ برائے 1997ءکی شق نمبر (4) 3 میں لکھا ہے کہ ”ادارے کے رکن کیلئے لازمی ہے کہ وہ اچھی ساکھ اور اہلیت کا حامل ہو اور اس کے پاس قانون، بزنس، انجینئرنگ، فنانس، اکاﺅنٹنگ، معیشت یا پھر پاور انڈسٹری کے شعبے میں 15 سال کا تجربہ ہو۔“ یہاں بھی بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی کرنے والے ارکان یا تو ریٹائرڈ فوجی افسران ہیں یا پھر ایسے سرکاری ملازمین ہیں جن کے پاس تجربہ نہیں یا پھر انہیں پاور سیکٹر کا بہت کم تجربہ ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ندیم الحق کی پٹیشن میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ چیئرمین اور چاروں ممبران کے تقرر کے معاملے میں طے شدہ قوائد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ امیدواروں کے تقرر کے معاملے میں اشتہار کے اجراءکا کوئی نظام ہے اور نہ ہی موزوں امیدواروں تلاش کرکے انہیں منتخب کرنے کا کوئی میکنزم، تقرر سے قبل ان کی اہلیت کی جانچ پڑتال تو دور کی بات ہے۔ یہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی خلاف ورزی ہے جس کا اندازہ مختلف فیصلوں کو پڑھ کو ہوجاتا ہے۔ نیپرا کی رپورٹ میں بجلی کی پیدوار اور طلب کے فرق کو بھی جعلی قرار دیا گیا ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹی نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکمران جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بجلی صارفین کے 70 فیصد میٹرز استعمال کے دورانیے (ٹائم آف یوز) کے معاملے میں خراب ہیں یا پھر پرانے ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں صارفین لٹ جاتے ہیں یا پھر حکومت منصفانہ رقم وصول کرنے سے محروم رہ جاتی ہے۔ نیپرا نے اپنی سالانہ رپورٹ میں وزارت پانی و بجلی کارکردگی پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ جان بوجھ کر پاور شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، سرکاری تھرمل پاور پلانٹس کی انتظامیہ جان بوجھ کر پاور پلانٹس بند رکھتی ہیں اور بجلی صارفین کے 70 فیصد میٹرز استعمال کا دورانیہ خراب ہے اور کچھ صارفین مصروف ترین اوقات کی ادائیگی کرتے ہیں اور کچھ کم مصروف اوقات کی ادائیگی کرتے ہیں۔
نیپرا کی سالانہ رپورٹ نے سرکاری پاور سیکٹر کے منتظمین کو مشتعل کر دیا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
اسے بھی اٹھا لیں
-
آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملہ کرنے والے حملہ آوروں کی شناخت ہوگئی
-
بیرونِ ملک روزگار کیلئے جانے والے پاکستانیوں کیلئے بڑا فیصلہ
-
ڈی ایس پی عثمان حیدر کے ہاتھوں بیوی اور بیٹی کے قتل کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
-
نئے سال کی آمد ! تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف مل گیا
-
پی ٹی آئی کو بڑا دھچکا، اہم رہنما کا پارٹی چھوڑنے کا اعلان
-
پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں بڑا اضافہ
-
ڈی ایس پی عثمان حیدر کی بیوی ور بیٹی کی گمشدگی کا معمہ حل،ملزم نے خود قتل کرنے کا اعتراف کرلیا
-
پانچ سو روپے ماہانہ کمانے والے کپل شرما اب کتنی دولت کے مالک ہیں؟، جان کر دنگ رہ جائیں گے
-
جسم فروشی کے لیے لڑکیوں کی دبئی اسمگلنگ کرنے والا گروہ بے نقاب
-
باجوہ نے کہا رانا بہت موٹے ہوگئے ہو، جیل میں تھے تو بہت سمارٹ تھے، فیض رانا کو پھر سمارٹ بناؤ: رانا...
-
سڈنی دہشتگردی: بھارت و اسرائیل کی پاکستان کو پھنسانے کی کوشش ناکام، حملہ آور افغان شہری نکلے
-
سڈنی ساحل حملے میں ملوث ساجد اکرم کے بھارتی ہونے کا انکشاف
-
بگرام ایئر بیس پر طالبان کا بڑا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوگیا، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف















































