بھلوال پنجاب کا چھوٹا سا ٹاؤن ہے‘ اس شہر میں 8 جولائی کو ’’معمولی‘‘ سا واقعہ پیش آیا‘ ایک پرائیویٹ مسافر وین مسافروں کو لے کر کوٹ مومن جا رہی تھی‘ وین کو اچانک آگ لگ گئی اور آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری وین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ دائیں بائیں موجود لوگوں کو آگ بجھانی نہیں آتی تھی‘ وہ اس پر پانی اور مٹی پھینکتے رہے مگر آگ کنٹرول نہ ہو سکی اور یوں چند ہی لمحوں میں پانچ لوگ جل کر کوئلہ بن گئے اور دو شدید زخمی ہو گئے۔
یہ زخمی اسپتال پہنچ کر فوت ہو گئے جب کہ مزید 13 افراد زخمی حالت میں اسپتالوں میں پڑے ہیں اور ان میں دو بچے بھی شامل ہیں‘ یہ بھی بری طرح جھلسے ہوئے ہیں‘ ڈاکٹروں کا خیال ہے یہ لوگ اگر موت سے بچ گئے تو بھی ان کی زندگی موت سے بدتر ہو گی‘ ان کے لیے جلے ہوئے جسموں کا علاج اور پھر ان کے ساتھ زندگی گزارنا آسان نہیں ہوگا۔
پولیس حسب روایت بھاری نفری کے ساتھ موقع واردات پر پہنچ گئی اوراس نے نعشیں اور زخمی اسپتال پہنچا دیے‘ ابتدائی تحقیقات کے مطابق وین سی این جی پر چلتی تھی‘ سفر کے دوران گیس سلنڈر لیک ہو گیا‘ گیس نے آگ پکڑ لی اور یوں پوری وین مسافروں سمیت جل کر راکھ بن گئی۔
ٹی وی چینلز پر شروع میں ٹکرز اور پھر خبریں چلیں تو خودکار نظام کے تحت وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے لیا اور مرحومین کے لیے دعا کا پیغام جاری کر دیا اور اگلے چند گھنٹوں میں پورا ملک اور پورا سسٹم حادثے کو بھول چکا تھا‘ میرا دعویٰ ہے آپ آج چاردن بعد ڈی پی او سے لے کر وزیراعلیٰ تک کسی شخص سے اس حادثے کے بارے میں پوچھ لیں‘ کسی کو کچھ یاد نہیں ہو گا۔
دوسرا واقعہ اس سے اگلے دن یعنی 9جولائی کو جہلم میں پیش آیا‘ جی ٹی روڈ پر کالا گجراں کے قریب میاں سکندر ہوٹل تھا‘ اس ہوٹل میں سلنڈر پھٹا اور اس نے پوری عمارت اڑا دی‘ تین منزلہ ہوٹل چند سیکنڈز میں زمین بوس ہو گیا‘ اس واقعے میں بھی 6 لوگ ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے‘ ان میں تین شدید زخمی ہیں‘ حادثے کے وقت ہوٹل میں 35 لوگ تھے‘ جہلم میں کینٹ بھی ہے لہٰذا پولیس کے ساتھ فوج بھی موقع واردات پر پہنچ گئی۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ بھی سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے پیش آیا‘ ہوٹل کے نیچے سلنڈر فلنگ کی دکان تھی‘ فلنگ کے دوران سلنڈر پھٹا اور وہ پوری عمارت کو لے کر بیٹھ گیا‘ اس واقعے کا بھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا اور ساتھ ہی مرحومین کے لیے دعا بھی فرما دی اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا پیغام بھی جاری کر دیا۔
یہ دونوں واقعات تین حقیقتیں ظاہر کرتے ہیں‘ ملک میں گیس سلنڈرز سے سیفٹی کا کوئی سسٹم موجود نہیں‘ گیس اگر گاڑیوں میں استعمال ہو رہی ہے تو بھی اس کی پڑتال کا کوئی سسٹم نہیں اور یہ اگر سلنڈرز کی شکل میں بیچی جا رہی ہے تو بھی اس کا کوئی چیک اینڈ بیلنس سسٹم موجود نہیں چناں چہ گاڑیوں کے سلنڈرز بھی کسی وقت پھٹ سکتے ہیں اور یہ اگر سلنڈر کی شکل میں کسی عمارت میں موجود ہیں تو بھی یہ بم ہیں اور یہ بھی کسی وقت پوری عمارت کو قبر بنا سکتے ہیں اور حکومت کے کسی ادارے کے پاس سلنڈر سیفٹی سسٹم بنانے اور اس پر عمل کرانے کے لیے وقت نہیں‘ دوسری حقیقت ملک میں کسی شخص کو آگ بجھانے کا طریقہ معلوم نہیں‘ گاڑیوں اور عمارتوں میں آتش زدگی سے بچاؤ کے آلات نہیں ہیں اور آج تک کسی نے اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی چناں چہ جہاں آگ لگ گئی سو لگ گئی اور یہ اگر قدرتی طریقے سے بجھ جائے تو اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ورنہ دوسری صورت میں 25 کروڑ لوگوں کا ملک صرف تماشا دیکھ سکتا ہے اور تیسری حقیقت حکومت کا کام پالیسی بنانا اور اس پر عمل کرانا نہیں ہے۔
یہ صرف تعزیت کر سکتی ہے اور نوٹس لے سکتی ہے اور بس‘ میں آج تک حیران ہوں وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نوٹس لیتے کیسے ہیں اور یہ بعدازاں اس نوٹس کا کرتے کیا ہیں؟ میرا خیال ہے اگر کوئی محقق کسی دن حکومتوں کے سارے نوٹسز جمع کر لے تو شاید پاکستان سے امریکا تک کاغذوں کی سڑک بن جائے کیوں کہ حکومتیں ماضی کی ہوں یا پھر موجودہ ہو یہ روزانہ سیکڑوں کے حساب سے نوٹس لیتی ہیں اور اس کے بعد وہ نوٹس کسی بلیک ہول میں گم ہو جاتا ہے‘ ہم بڑی ہی دل چسپ قوم ہیں‘ ہم اگر ایٹم بم بنانا چاہیں تو پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود گھاس کھا کر بھی ایٹم بم بنا لیتے ہیں۔
ہم اگر جناح ہاؤس لاہور کے حملہ آور تلاش کرنا چاہیں تو ہم صرف سوشل میڈیا کے کلپس دیکھ کر شکلیں نادرا کے ڈیٹا سے میچ کرتے ہیں اور پھرمجرموں کو تہہ خانوں اور غاروں سے بھی گھسیٹ کر نکال لیتے ہیں اور فوجی عدالتوں میں ان کے مقدمات شروع کر دیتے ہیں جب کہ دوسری طرف کچے کے ڈاکو روزانہ نیشنل ہائی وے سے مسافروں کو اغواء کرتے ہیں‘ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے خاندانوں سے تاوان مانگتے ہیں۔
خاندان سوٹ کیسز میں رقم ڈال کر شہروں میں بیٹھ کر ڈاکوؤں کو تاوان ادا کرتے ہیں اور اگر تاوان نہ ملے تو ڈاکو مغوی کو قتل کر کے گھر والوں کو اس کی وڈیو بھجوا دیتے ہیں اور ریاست بے بسی سے دائیں بائیں دیکھتی رہ جاتی ہے‘ریاست ان ڈاکوؤں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تلاش کرپاتی ہے اور نہ ان کے علاقوں میں جا سکتی ہے‘ ہم پوری قوم اس جناح ہاؤس کے لیے دکھی ہیں جس میں قائداعظم نے ایک بھی رات بسر نہیں کی لیکن جس میں قائداعظم پیدا ہوئے اور ان کا پورا بچپن گزرا وہ جناح ہاؤس گٹر کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور وہاں نشئی ڈیرے ڈال کر بیٹھے ہیں۔
قائداعظم کے دوسرے گھر فلیگ اسٹاف ہاؤس کو حکومت نے میوزیم بنا دیا تھالیکن اس میوزیم میں بھی تالے پڑے رہتے ہیں اور قائداعظم کی ذاتی اشیاء کی صفائی کو دس دس دن گزر جاتے ہیں‘ ہم ایک طرف پوری دنیا میں پھیلا پی ٹی آئی کا نیٹ ورک پکڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ہم سے کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے اسٹریٹ کرائمز اور ڈاکے کنٹرول نہیں ہوتے‘ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں روزانہ ہزاروں لوگ لٹتے ہیں۔
لوگ کراچی شہر میں شام کے بعد گھر سے نہیں نکلتے کیوں کہ لوگوں کو ان کی اپنی گلیوں میں لوٹ لیا جاتا ہے اور حکومت ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کرپاتی اور ہم ایک طرف دہشت گردی کی آگ بجھا دیتے ہیں اور دوسری طرف ہم سے سلنڈر کنٹرول نہیں ہوتے‘ ہم اس تضاد کو کیا کہیں گے؟ میرا خیال ہے ہمارا ایشو صرف کیپسٹی نہیں ہے۔
ہم بدنیت بھی ہیں‘ ہم اگر کچھ کرنا چاہیں تو ہم پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود کر گزرتے ہیں اور اگر نہ کرنا چاہیں تو پھر قدرت بھی بے بس ہو جاتی ہے چناں چہ ملک میں ایک طرف لوگ مر رہے ہیں اور حکومت تعزیتی پیغام جاری کر رہی ہے اور مزے سے گھر بیٹھی ہے‘ مجھے یقین ہے ملک میں لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے‘ لوگ لٹتے بھی رہیں گے اور حکومت کو ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑے گا اور یہ اس ملک کابہت بڑا المیہ ہے‘ ہم رائفل کے ہوتے ہوئے بھی چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں۔
میری حکومت اور ریاست دونوں سے درخواست ہے آپ مہربانی کریں اور لوگوں کی ہلاکت کو سیریس لیں‘ گیس سلنڈرز کی سیفٹی‘ کچے کے ڈاکو اور بڑے شہروں سے اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے کے لیے کسی آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی ضرورت نہیں‘ ان کے لیے راکٹ سائنس بھی نہیں چاہیے‘ صرف نیت کافی ہو گی‘ وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم اپنے کسی ڈپٹی سیکریٹری کی ذمے داری لگا دیں‘ یہ رپورٹ تیار کر کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو دے دے اور یہ دونوں آئی جی حضرات کو بلا کر حکم دے دیں۔
آپ نے ایک ماہ میں شہر سے اسٹریٹ کرائم ختم کرنا ہے اور اس میں کسی قسم کی غفلت برداشت نہیں ہو گی‘ آئی جی اگر کر دے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں اس کے ساتھ وہی سلوک کریں جو آپ اپنی خدمت نہ کرنے والے آئی جیز کے ساتھ کرتے ہیں‘ دوسرا فوج کو ذمے داری دیں اور ایک ہی بار کچے کے سارے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کر کے یہ مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں‘ ہم نے اگر دہشت گردی کی جنگ جیت لی تھی تو کچے کے ڈاکو کیا چیز ہیں اور آپ پولیس‘ ٹریفک پولیس اور گیس کمپنیوں کو سلنڈر سیفٹی کا کام بھی سونپیں‘ ایک ہی بار ایس او پیز بنائیں اور اس کے بعد جو بھی ان کی خلاف ورزی کرے اسے عمر قید دے دیں۔
کمپنی کو بھی دس بیس کروڑ روپے جرمانہ کریں اور جس علاقے میں گاڑی کا سلنڈر پھٹے یا دکان یا ریستوران میں دھماکا ہو اس کے ٹریفک اہلکاروں اور ایس ایچ اوز کو سروسز سے فارغ کر دیں پھر دیکھیں دھماکے کیسے ہوتے ہیں اور گاڑیوں کی گیس کیسے لیک ہوتی ہے؟ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم اس معاملے میں روزانہ رپورٹس بھی لیں۔
یہ معاملہ پھر ختم ہو گا ورنہ شہروں میں روزانہ گاڑیاں اور عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنتی رہیں گی‘ انسان کے بارے میں کہتے ہیں یہ ایک ایسا جانور ہے جو غلطی نہیں دہراتا جب کہ ہم پاکستانی ایسا جانور بن چکے ہیں جو روزانہ اس امید پر پرانی غلطیاں دہراتا ہے کہ اس بار نتیجہ مختلف نکلے گا چناں چہ یہ ملک غلطستان بنتا جا رہا ہے۔
میری احسن اقبال سے درخواست ہے یہ مہربانی فرما کر جاتے جاتے فائر سیفٹی اور فرسٹ ایڈ کو سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کورس کا لازمی حصہ بنا دیں‘ پوری قوم کو زخمی کو اٹھانے اور آگ بجھانے کی تمیز نہیں ہے چناں چہ لوگ اگر حادثے میں بچ جاتے ہیں تو انھیں گاڑیوں سے نکالتے اور آگ بجھاتے ہوئے مار دیا جاتا ہے اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیے۔
حکومت بس اسے سلیبس کا حصہ بنا دے اور میڈیا پر کمپیئن کرا دے‘ سیکڑوں ہزاروں لوگ موت سے بچ جائیں گے مگر شاید ہم ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنا ہی نہیں چاہتے‘یہ نیتوں کا فتور ہے اور ایسے فتور صرف اﷲ تعالیٰ ہی دور کر سکتا ہے‘ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔