ڈاکٹر احمد عماد الدین راضی مصر کے مشہور آرتھوپیڈک سرجن تھے’ یہ عین الشمس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن کے ڈپٹی ڈین بھی رہے اور مصر کے وزیر صحت بھی ’ یہ ہر لحاظ سے مشہور شخصیت تھے’ ڈاکٹر راضی کو 5 جون کو ہارٹ اٹیک ہوا’ انہیں مشرقی قاہرہ کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لے جایا گیا’ ہسپتال ان کے دوست کا تھا اور یہ بھی ملک کا مشہور کارڈیالوجسٹ ہے’ ڈاکٹر راضی کی طبی صورت حال زیادہ خطرناک نہیں تھی’ یہ اس ہسپتال اور اسی ڈاکٹر سے پہلے بھی آپریشن کرا چکے تھے چناں چہ تمام معاملات کنٹرول میں تھے’
ڈاکٹر راضی کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور ان کی ‘‘کارڈیک کیتھٹرائزیشن’’ شروع ہو گئی’ یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں باریک لچک دار ٹیوب (Catheter) کو دل کے چیمبر میں داخل کیا جاتا ہے اور اس سے مریض کی تشخیص ہوتی ہے’ کیتھٹرائزیشن کرنے والا ورکر زیادہ ماہر نہیں تھا’ وہ چوک گیا اور اس معمولی سی غلطی کی وجہ سے مصر کے سابق وزیر صحت اور آرتھو پیڈک سرجن آپریشن ٹیبل پر ہی انتقال کرگئے’ یہ ایک بڑی خبر تھی’ مصری میڈیا نے اسے اٹھا لیا’ حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور کمیٹی میں بھی کیتھٹرائزیشن کو ذمہ دار قرار دیا گیا’
یہ بظاہرایک عام خبر تھی’ پوری دنیا میں اس نوعیت کے واقعات ہوتے رہتے ہیں’ طبی عملے اور ڈاکٹروں کی غفلت سے روزانہ سینکڑوں مریض مرتے ہیں لیکن یہ خبر معمولی ہونے کے باوجود غیر معمولی تھی’ کیوں؟ کیوں کہ مصر میں کارڈیک کیتھٹرائزیشن کے لیے 2016ء سے قبل سرجن سے زیادہ تجربہ اور سرٹیفکیشن ضروری ہوتی تھی لیکن ڈاکٹر راضی نے اپنے دور میں تجربہ اور سرٹیفکیشن کم کر کے سینکڑوں نوجوانوں کو پریکٹس کی اجازت دے دی ’ ان کا خیال تھا سرجری سرجن کرتا ہے اور اس کا کوالی فائیڈ اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے’
سپورٹنگ سٹاف آپریشن کے دوران صرف چھریاں اور قینچیاں پکڑاتا ہے’ اس کے لیے زیادہ سرٹیفکیشن اور تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا ڈاکٹر راضی کی مہربانی سے سرجری کے سپورٹنگ سٹاف میں اضافہ ہوگیا اور یوں ڈاکٹرز اور سرجنز کی پرائیویٹ پریکٹس بڑھ گئی مگر آخر میں ڈاکٹر راضی خود بھی ناتجربہ کار سٹاف کی ناتجربہ کاری کا نشانہ بن گئے۔
ہمارے دوست رضا بشیر تارڑ اس صورت حال کو ‘‘گناہ جاریہ’’ کہتے ہیں’ یہ جاپان میں پاکستان کے سفیر ہیں’ میں پچھلے ماہ جاپان گیا تو رضا بشیر تارڑ نے مجھے ٹوکیو کی بلند ترین عمارت روپنگ ہلز کی 54 ویں منزل پر ڈنر دیا’ ڈنر شان دار تھا لیکن میں نے تارڑ صاحب کی کمپنی کو زیادہ انجوائے کیا۔ ‘‘گناہ جاریہ’’ کی ٹرم اس ملاقات کا حاصل تھی’ تارڑ صاحب کا کہنا تھا ہم زندگی میں جتنی نیکیاں کرتے ہیں وہ صدقہ جاریہ کہلاتی ہیں’ اگر نیکیاں صدقہ جاریہ ہیں تو پھر ہمارے گناہوں اور غلطیوں کو بھی جاریہ ہونا چاہیے’ یہ بھی مسلسل گل کھلاتی ہیں اور برسوں بلکہ صدیوں تک لوگوں کو ان کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے اور یہ ہمارے بعد بھی ہمارے کھاتے میں درج ہوتی رہتی ہیں’
یہ نقطہ میرے لیے نیا تھا چناں چہ میں نے اسے پلے باندھ لیا’ میں آج کل ایک بار پھر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں’ میرے ایک دوست نے چند برس قبل مجھے انڈیا سے مولانا وحید الدین خان کا ترجمہ منگوا کر دیا تھا’ یہ صرف ترجمہ ہے’ اس میں عربی نہیں ہے لہٰذا میں اسے عام کتاب کی طرح پڑھ اور انڈر لائن کر سکتا ہوں’ آپ یقین کریں قرآن مجید کا ترجمہ میرا سارا پرسیپشن بدلتا چلا جا رہا ہے’ اسلام وہ نہیں ہے جسے ہم لے کر پھر رہے ہیں’ اللہ تعالیٰ کا پیغام بالکل مختلف ہے اور اس مختلف پیغام میں وہ بار بار کہہ رہا ہے تم اس زمین پر جو کچھ کر رہے ہو تمہیں اس کا زندگی اور آخرت دونوں جگہوں پر حساب دینا ہو گا اور ڈاکٹر احمد عماد الدین راضی کے ساتھ بھی یہی ہوا’
یہ اپنے غلط فیصلے کا رزق بن گئے لیکن سوال یہ ہے کیا ان کی موت سے ان کو نجات مل جائے گی؟ جی نہیں’ ان کا غلط فیصلہ گناہ جاریہ ہے اور جب تک مصر میں لوگ ‘‘کارڈیک کیتھٹرائزیشن’’ کا شکار بنتے رہیں گے ڈاکٹر راضی کی سزا میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا’ ان کی روح کا بوجھ بھی بڑھتا رہے گا لہٰذا ہمیں بھی ڈاکٹر راضی جیسے گناہ جاریہ سے بچنا چاہیے’ ایسے گناہ زندگی اور آخرت دونوں جگہ ہمیں ڈستے رہتے ہیں۔
مجھے مدت پہلے ایک سیشن جج ملے’ ان کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا’ میں نے ان سے حادثے کی وجہ پوچھی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ انہوں نے بتایا’ میں اپنی بیٹی کے ساتھ شاپنگ کے لیے گیا’ وہاں موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے بیٹی کا بیگ کھینچ لیا’ میری بیٹی نے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ موٹر سائیکل کے ساتھ گھسیٹنے لگی’ میں مدد کے لیے دوڑ کر گیا تو ڈاکو گھبراگئے اور انہوں نے گولی چلا دی’ ایک گولی میرے ہاتھ پر لگ گئی اور دوسری بیٹی کے سر پر’ بیٹی وہیں انتقال کر گئی جب کہ میرے ہاتھ کا زخم بگڑ گیا اور ڈاکٹر دو ماہ بعد ہاتھ کاٹنے پر مجبور ہو گئے’
وہ اس کے بعد دھاڑیں مار کر رونے لگے’ میں نے ان کی ڈھارس بندھائی تو انہوں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے بتایا ‘‘میں اپنی بیٹی یا اپنے ہاتھ کی وجہ سے نہیں رو رہا’ میں مجرموں کی وجہ سے رو رہا ہوں’ میں نے ملازمت کے زمانے میں صرف چند ہزار روپے کے لالچ میں بے شمار چوروں اور ڈاکوؤں کو چھوڑ دیا تھا’ مجھے روز محسوس ہوتا ہے مجھ پر گولی چلانے والا میرا ہی چھوڑا ہوا کوئی مجرم ہو گا’ یہ احساس مجھے اب جینے نہیں دیتا۔ مجھے کراچی میں ٹریفک پولیس کے ایک افسر سے ملاقات کا موقع ملا’ اس کی کہانی بھی انتہائی تکلیف دہ تھی’ اس کا خاندان سفر کر رہا تھا’ سڑک کی دوسری طرف سے گاڑی آئی اور ان کی گاڑی سے ٹکرا گئی’ یہ کار چھوٹی تھی’ یہ کھائی میں جا گری’
اس افسر کا پورا خاندان حادثے میں انتقال کر گیا’ اس کا خیال تھا میں پیسے لے کر ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا کرتا تھا’ میں سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھی ہزار دو ہزار روپے لے لیا کرتا تھا’ مجھے محسوس ہوتا ہے میرے خاندان کو مارنے والا بھی میرا ہی کوئی لائسنس ہولڈر ہو گا یا پھر میں نے اسے چھوٹی بڑی غلطی کے بعد چھوڑ دیا ہو گا اور اس نے میرے پورے خاندان کو قتل کر دیا۔ مجھے اسی طرح تعلیمی بورڈ کا ایک سابق چیئرمین ملا’ اس کا خاندان کسی زیرتعمیر پل کے ستون کے نیچے آ کر مارا گیا تھا’ اس کا کہنا تھا میں نے سینکڑوں نالائق نوجوانوں کو میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہنچایا تھا چناں چہ ہو نہ ہو وہ پل میرے ہی کسی کلائنٹ نے بنایا ہوگا اور وہ میرے ہی خاندان پر گر گیا اور مجھے اسی طرح ایک دودھ فروش ملا’
اس کے تین بچے تھے اور تینوں جسمانی طور پر کم زور تھے’ مجھے اس نے بتایا میرے بچوں کو بچپن میں دودھ سے الرجی تھی’ یہ دودھ نہیں پی سکتے تھے جس کی وجہ سے ان کی گروتھ رک گئی’ میں نے اسے بتایا’ آج کل یہ بیماری لاعلاج نہیں ’ تم کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کر لیتے’ اس نے مسکرا کر جواب دیا’ جاوید صاحب دنیا کے پاس اس بیماری کا علاج ہو گا لیکن میرے بچے اس علاج سے ٹھیک نہیں ہو سکیں گے’ میں نے اس یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے ہول ناک کہانی سنائی’
اس کا کہنا تھا میرے پاس پچاس بھینسیں تھیں’ میں ان کا دودھ بیچتا تھا’ میں لالچ میں آگیا اور بھینسوں کو ٹیکے بھی لگانے لگا اور دودھ میں ڈٹرجنٹ پاؤڈر (سرف) اور یوریا کھاد بھی ملانے لگا’ میں نے اس سے لاکھوں روپے کمائے لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بچوں کو دودھ سے الرجی کر دی اور میں انہیں اٹھا اٹھا کر پھرنے لگا’ میں جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ ہزاروں بچے آ جاتے تھے جنہیں میں یوریا اور سرف والا دودھ پلاتا رہا’ ان بچوں کاکیا بنا ہو گا؟ کیا وہ زندہ ہوں گے؟ اگر ہاں تو ان کے معدوں کی کیا صورت حال ہو گی چناں چہ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں میرے بچوں کا مرض لاعلاج ہے’ علاج بیماریوں کا ہوتا ہے گناہوں کا نہیں اور میں گناہ گار ہوں۔
میں چند دن قبل ایک دوست کے دفتر گیا’ اس دن ان کے محکمے میں بھرتیاں چل رہی تھیں’ میرے دوست مجھے بتانے لگے اقرباء پروری کا یہ عالم ہے میرے پاس درجہ اول اور دوم کے لیے بھی وزیروں کی سفارشیں آ رہی ہیں’ انہوں نے اس کے بعد چٹوں کا پورا دستہ میرے سامنے رکھ دیا’ میں نے اپنے دوست کو گناہ جاریہ کی تھیوری سنائی اور اس کے بعد اس سے کہا تم اگر اپنے کسی سفارشی اور نااہل چپڑاسی کے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو تو پھر ساری نوکریاں ان چٹوں میں بانٹ دو اور اگر اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی چاہتے ہو تو صرف اور صرف میرٹ پر فیصلہ کرو اور اہل لوگوں کو سلیکٹ کرو’ تم صدقہ جاریہ کا حصہ بن جاؤ گے اوران لوگوں اور ان کے خاندانوں کی دعائیں دہائیوں تک تمہارے خاندان کی حفاظت کریں گی’ میرے دوست کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ اس نے تمام چٹیں پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیں اور پی اے کو بلا کر کہا ‘‘ہم کام یاب امیدواروں کی فہرست نہیں لگائیں گے’ تم ان سب کو دفتر بلاؤ گے اور ہم ان کی براہ راست جوائننگ لیں گے’’ پی اے نے گھبرا کر کہا ‘‘سر نیب’’ میرے دوست نے جواب دیا ‘‘میں اس صدقہ جاری کے لیے جیل جانے کے لیے بھی تیار ہوں’’۔