کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) ملک میں ڈیجیٹل مردم اور خانہ شماری شدید تنازعات میں گھر چکی ہے۔جنگ اخبار میں اعظم خان کی خبر کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے متعلق اعداد وشمار اور نقل مکانی کے رجحان کو عام شہریوں سمیت خود سیاست دان بھی درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
مردم شماری کے مطابق کراچی کی آباد اندازاً ایک کروڑ 70 لاکھ سے کچھ زائد جبکہ حیدر آباد کی ایک کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ دکھائی گئی ہے۔ان نمبرز پر خود سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی مومنٹ اور جماعت اسلامی نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
مردم شماری کی تاریخ میں دوبار توسیع کی جاچکی ہے۔ لیکن نتائج اب تک مرتب نہیں کیے جاسکے ہیں۔انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق وفاقی شماریات ڈویژن بھی تذبذب کا شکار ہے، حکام تنائج کو سب کیلئے قابل قبول اور درست بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
بااعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں کئی علاقوں میں مردم شماری کا عملہ پہنچا ہی نہیں ہے جبکہ خدشہ ہے کہ دیہی علاقوں میں عملے نے گھر بیٹھے ہی اندراج کیا ہے۔ذرائع کے مطابق کراچی میں آبادی توقعات کے مطابق ظاہر کرنے کیلئے مقامی آفیشلز نے شمار کنندگان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ہر بلاک میں دو ، دو سو افراد کا اضافہ کریں، شمار کنندگان کو دو،دو بلاکس دیئے گئے تھے۔
ان ہدایات نے شمار کنندہ عملے کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ انہوں نے انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ ٹیبلٹس میں ڈیٹا جمع کرکے مرتب کیا ہے اور کئی نے جمع بھی کرادیا ہے، اس ڈیٹا میں ترمیم کرنے کا مطلب پورا ریکارڈ ہی مشکوک بنانا ہوگا