اتوار‬‮ ، 11 مئی‬‮‬‮ 2025 

ٹیریان کیس، کیا عوام کو پتہ نہیں ہوناچاہیے کہ ان کے نمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی

datetime 29  مارچ‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی)مبینہ بیٹی ٹیریان کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دور ان جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا عوام کو پتہ نہیں ہوناچاہیے کہ ان کے نمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں؟۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ

نے کیس کی سماعت کی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر بھی لارجر بینچ میں شامل ہیں۔عمران خان کے وکلاء سلمان اکرم راجہ، ابو ذر سلمان خان نیازی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔درخواست کے قابل سماعت ہونے پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو فنانشلی طور پر زیر کفالت ہیں ان سے متعلق بیان حلفی میں ذکر کرنے کا کہا گیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا عوام کو پتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے نمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں؟الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی آج بھی نامزدگی فارم کا حصہ ہوتا ہے۔عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے زیر کفالت ہونے سے متعلق پانامہ پیپرز کیس کا حوالہ دیا اور ٹیریان سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 فیصلوں کا حوالہ دیا، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس محسن اختر کیانی کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دونوں پٹیشنز میں اسی طرح کے الزامات لگائے گئے تھے، کیلیفورنیا عدالت کا فیصلہ یکطرفہ تھا، درخوست گزار شہری کون ہیں؟میں نے کبھی نہیں دیکھا، درخواست گزار کی جمع کرائی گئی فیصلوں کی نقول تصدیق شدہ نہ ہونے کا سوال بھی ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پانامہ کیس میں سوال آیا تھا مریم نواز زیر کفالت ہیں یا نہیں؟ زیر کفالت پر اس کیس میں مفصل بحث ہوئی، کم عمر بچوں کو زیر کفالت کی کیٹیگری میں ظاہر کرنا لازم تھا، ٹیریان کی عمر کاغذات نامزدگی کے وقت 26 سال اور اب 31 سال ہے۔

عمران خان کے وکیل نے ڈی این اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے دیا۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ کسی سے زبردستی ڈی این اے نہیں لے سکتی ہے، ڈی این اے دینے کے حوالے سے متاثرہ فریق کی مرضی ضروری ہوتی ہے، اس کیس میں بھی ڈی این اے اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ خود چاہے، پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ آپ کسی کا زبردستی ڈی این اے لینے کا کہیں،

عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لیے پٹیشن قابل سماعت نہیں۔عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے فیصل واوڈا کے کیس کا حوالہ بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی قانون کسی کو باہر سے بلا کر نہیں کہہ سکتا ڈی این اے سیمپل دو، اس ایک نکتے پر یہ کیس ’ڈیڈ اینڈ‘ پر پہنچ جاتا ہے، ڈی این اے سیمپل ریپ کیس کے متاثرہ سے بھی زبردستی نہیں لیا جا سکتا، سیمپل دینا ایک رضاکارانہ کام ہوتا ہے۔وکیل صفائی سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ڈی این اے کو شواہد کا حصہ بنانے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے میری استدعا پر دیا تھا، اس قانون کے مطابق بھی کسی سے جبراً سیمپل لینے پر پابندی ہے۔

موضوعات:



کالم



وہ بارہ روپے


ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…