بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو نے لگی

28  فروری‬‮  2015

نئی دہلی۔۔۔۔بھارت میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2001 سے سنہ 2011 کے درمیان دس برس میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار میں پانچ فیصد کمی آئی ہے۔سنہ 2001 میں مسلمانوں کی آبادی میں 29 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا تھا اور سنہ 2011 تک یہ شرح کم ہو کر 24 فیصد پر آ گئی۔وزارت داخلہ نے سنہ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار ابھی تک باضابطہ طور پر جاری نہیں کیے ہیں لیکن جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق ملک کی اوسط شرح پیدائش 18 فیصد ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر تقریباً 18 کروڑ ہو گئی ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 14.2 فیصد ہے۔ملک میں ہندوؤں کی آبادی اس مدت میں معمولی سی کمی کے ساتھ 80 فیصد سے نیچے آ گئی ہے۔خیال رہے کہ سنہ 1991 سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔سنہ 1991 میں جو شرح 32.2 فیصد تھی وہ سنہ 2001 میں 29 فیصد پر آئی اور سنہ 2011 میں یہ مزید کم ہو کر 24 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہا تو سنہ 2021 کی مردم شماری تک مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار موجودہ قومی رفتار یعنی 18 فیصد سے نیچے جا سکتی ہے۔ایران میں شرح پیدائش میں اس قدر کمی واقع ہوئی ہے کہ اس کی آبادی کے کم ہونے کا خدشہ ہونے لگا ہے۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت میں ذرائع ابلاغ اور ماہرین مسلمان کی گھٹتی ہوئی رفتار کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے مسلمانوں کی آبادی میں ’دھماکہ خیز اضافہ‘ ہو رہا ہے۔بعض مغربی ملکوں کی طرح بھارت میں بھی دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں مسلمانوں کی اونچی شرح پیدائش کو ایک ایک مسلم مملکت میں بدلنے کی مسلمانوں کی ایک سازش قرار دیتی رہی ہیں۔حالانکہ آبادی کے ماہرین زیادہ بچوں کی پیدائش کو تعلیم کی کمی اور غربت سے منسوب کرتے ہیں اور وہ ثبوت کے طور پر ہندوؤں کے اس گروپ کا حوالہ دیتے ہیں جو تعلیمی اور اقتصادی طور پر مسلمانوں کے ہی زمرے میں آتے ہیں اور ان کی شرح پیدائش بھی مسلمانوں کی طرح اونچی ہے۔لیکن آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کی بعض دیگر محاذی تنظیمیں ملک میں مسلمانوں کی’ آبادی کے دھماکے‘ کے پرچار میں لگی ہوئی ہیں۔یہ پروپیگنڈا بھی عام ہے کہ مسلمان مذہبی وجہ سے مانع حمل طریقوں کا استعمال نہیں کرتے۔ماہرین کے خیال میں پیدائش کی شرح میں اضافے کی وجوہات میں تعلیم کی کمی اور غربت شامل ہیں
دنیا میں تقریبا 50 ایسیممالک ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان میں سے 46 ممالک ایسے ہیں جہاں تعلیم کے فروغ اور بیداری کے ساتھ شرح پیدائش میں تیزی سے کمی کا رجحان ہے۔
ایران میں گذشتہ 20 برس میں شرح پیدائش اس حد تک نیچے آ گئی ہے کہ جلد ہی وہاں کی آبادی گھٹنا شروع ہو جائے گی۔بنگلہ دیش کی شرح پیدائش بھارت کے ہندوؤں کی شرح پیدائش سے کم ہے اور جلد ہی اس سطح پر پہنچ جائے گی جہاں آبادی مستحکم ہو جاتی ہے۔یہی حال پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، قطر اور دوسرے ملکوں کا ہے۔صحت اور تعلیم دو ایسے پہلو ہیں جن میں پوری دنیا میں مسلمان پیچھے رہے ہیں۔
چھوٹا خاندان صحت، تعلیم اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ آئندہ دو دہائیوں میں بھارت کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں شرح پیدائش آئیڈیل شرح حاصل کر لیں گی۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…