سوشل میڈیا پر فٹنس روٹین فوٹوز شیئر کرنے والے کیا ‘ذہنی مریض’ ہوتے ہیں؟

4  ‬‮نومبر‬‮  2018

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سوشل میڈیا جہاں آج کے تیز ترین مادی دور میں رابطوں، اطلاعات اور خبروں کی رسائی کا ایک آسان ذریعہ ہے وہیں اس کے صارف اس پر اپنی روز مرہ کی روٹین بھی شیئر کررہے ہوتے ہیں۔ اس روز مرہ امور میں صبح کی چائے سے لے کر کھانے پکانے اور تفریح مقامات سے لے کر ورزشوں کی روٹین تک کی فوٹوز پوسٹ کی جاتی ہیں۔ آپ کے دوستوں میں سے کوئی

ایسا بھی ہوتا ہے جو اکثر باڈی بلڈنگ کلب یا جسمانی ورزش کے دوران لی جانے والی فوٹوز پر سوشل میڈیا سائٹس پر شیئر کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ کام آپ بھی کرتے ہوں۔ آپ اچانک صبح اٹھیں اور کسی کی سوشل میڈیا وال پر یہ پوست دیکھیں کہ صحت مند رہنے کے لیے ‘جی ہاں! کام سے قبل 15 میل ضرور دوڑیں’، تو یہ آپ کو ورزش کی تحریک دلانے کے لیے موثر ثابت ہوسکتا ہے یا پھر آپ کے لیے پریشان کن ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے لندن کی برونیل یونیورسٹی کے ریسرچرز نے ایک تحقیق کی کہ آخر کیوں اکثر لوگ سوشل میڈیا پر اپنے ورک آؤٹ کی فوٹوز شیئر کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج نے مذکورہ سوشل میڈیا صارفین کو تقریبا بے نقاب کردیا ہے۔ عزت اور توجہ حاصل کرنے کے عادی جو لوگ ہمیشہ اپنے ورک آؤٹ کی فوٹوز لیتے ہیں (یہ فوٹوز فیشن اور کسی اچھے اقدام سے متعلق بھی ہوسکتی ہیں) خوبرو دکھنے (نرگسیت) کی کوششوں کا حصہ ہے۔ ریسرچرز کے مطابق یہ سب کرنے کا ابتدائی مقصد یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ آپ خود کے لیے کتنا وقت نکالتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسی پوسٹ پر دیگر اقسام کی پوسٹ کے مقابلے میں زیادہ لائکس آتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ ‘ایسے افراد کی جانب سے مستقل مزید خوبرو دکھنے کی کوشش کا مقصد صرف فیس بک کمیونیٹی کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے’۔ خیال رہے کہ ایسی فوٹوز پر زیادہ لائیکس آنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر کوئی آپ کی فوٹوز کو دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ڈاکٹر تارا مارشل کا کہنا تھا کہ ‘ہماری تحقیق کے نتائج یہ تجویز دیتے ہیں کہ خوبرو دکھنے کی کوششوں سے متعلق فوٹوز پر آنے والے لائیکس اور تبصرے ضروری نہیں کہ آپ کے دوستوں کی جانب سے آپ کے اس عمل کے حمایت کے لیے ہوں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘دوست احباب آپ کو اس قسم کی فوٹوز شیئر کرنے پر خفیہ طور پر ناپسند بھی کرسکتے ہیں’۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کو ورک آؤٹ کے مطلوبہ نتائج کے حصول تک فیس بک پر ایسی فوٹوز اپ لوڈ کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنے سے آپ کے دوستوں کی آپ کے ورک آؤٹ سے متعلق تشویش میں اضافہ ہوجائے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم

Javed Chaudhry Today's Column

زندگی کا کھویا ہوا سرا


Read Javed Chaudhry Today’s Column Zeropint ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…