اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اور کالم نگار اعزاز سید روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ”پولیس اصلاحات وقت کا تقاضا” میں تحریر کرتے ہیں کہ21 سالہ اسامہ ستی نے31دسمبر 2020کو اپنے گھر کے سامان سے روئی کی بنی نئی رضائی لی اور اپنی ماں فرحانہ بی بی
کو بتایا کہ وہ تین روز بعد تبلیغ پر اسے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ ماں نے ابتدا میں انکار کیا مگروہ بضد رہا۔ماں کو پتہ نہیں تھا کہ جلد اس کا بیٹا اسلام آباد پولیس کی بے حسی کے باعث ایک ایسے سفر پر بھیج دیا جائے گا جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں۔ اسامہ تبلیغ پر تو نہ جاسکا مگر 2جنوری 2021 کی خبر نے اس کی ماں فرحانہ بی بی سمیت پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔فرحانہ بی بی یکم جنوری کی رات سے ہی پریشان تھی کہ بیٹا گاڑی لیکر گیا ہے مگر رات گزرنے کے باوجود وآپس نہیں لوٹا۔ پریشانی میں اس وقت اوربھی اضافہ ہوگیا جب صبح سویرے اس کے شوہر ندیم یونس کو پولیس کی طرف سے فون پرمطلع کیا گیا کہ آپ کا بیٹا گولی لگنے سے زخمی ہوا ہے اورپمز میں زیرِ علاج ہے۔ندیم یونس دھڑکتے دل کے ساتھ پمز اسپتال پہنچا تو موقع پر موجود پولیس اہلکار نے بتایا کہ جناب یہ نوجوان تورات دو بجے پولیس فائرنگ میں جاں بحق ہوچکا اس کی لاش شناخت کیلئے پڑی ہے۔ باپ کو جواں سال بیٹے کی لاش نے ہلا کررکھ دیا۔
بیٹے اسامہ کے جسم پر گولیوں کے 6نشان تھے۔ لاش گھرپہنچی تو کہرام مچ گیا۔پولیس اہلکاروں نے گھروالوں کو بتایا کہ رات ڈکیتی کی ایک کال آئی تھی اسی دوران ہم نے اس نوجوان کو سڑک پر رکنے کا اشارہ کیا یہ نہیں رکا تو پولیس اہلکاروں سے گولی چل گئی جس سے یہ
نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ باپ کو بتایا گیا کہ ملزم پولیس اہلکار گرفتار کرلئے گئے ہیں، آپ درخواست دیں ہم آپ کی مدعیت میں پرچہ درج کر دیتے ہیں۔باپ نے درخواست دے دی اورپرچہ بھی درج کرلیا گیا۔ندیم یونس کے اسامہ سمیت 3 بچے ہیں،یہ خاندان اسلام آباد میں کم و بیش چالیس سال
سے مقیم ہے۔اسامہ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی خبرمیڈیا پر عجیب انداز میں لیک کی گئی۔پہلے پولیس نے اطلاع دی کہ پولیس نے ڈاکوئوں کا پیچھا کیا اور فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو جاں بحق ہوگیا پھر اطلاع دی کہ ناکے پر نہ رکنے کے باعث ایک شخص فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔
معاملہ آگے بڑھا تو پولیس نے پرانی تاریخوں کے مبینہ طورپر دو جعلی مقدمات بھی پیش کئے جن میں اسامہ کو ملزم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ پولیس بھول گئی کہ پرچے جعلی ہوں یا اصلی کسی قتل کا جواز ہرگز نہیں۔ میڈیا نے معاملہ اٹھایا تو حکومتی شخصیات کی مداخلت پر
پولیس نے اپنے پانچ اہلکاروں کے خلاف پرچے میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر دیں۔دوسری طرف اسامہ کے پوسٹ مارٹم کے بعد اس کی لاش کونہلایا گیا تو دفنا نے سے قبل بلکتی ماں نے کہا کہ میرے بیٹے کو وہ تازہ روئی والی رضائی بھی دو جو وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ماں نے بیٹے کی آخری خواہش پوری کی اور یوں اسامہ کو منوں مٹی تلے دفنا دیا گیا۔